سوال وجواب
سوال
آپ نے ایک جگہ لکھا ہے کہ— ’’ قرآن ایک اعتبار سے، کتاب وحی ہے اور دوسرے اعتبارسے کتابِ انقلاب ہے- پہلے اعتبارسے، وہ رہنما اصول (guiding principles) کا مجموعہ ہے اور دوسرے اعتبار سے، اس کے ذریعے ایک ایسا عمل (process) جاری ہوا جو اپنے تکمیلی مرحلے میں پہنچ کر معرفتِ اعلی کا ذریعہ بن گیا‘‘-اِس کی مزید وضاحت فرمائیں-(ایک قاری الرسالہ، نئی دہلی)
جواب
اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے قرآن کے حسب ذیل دو ارشادات کا مطالعہ کیجئے:
1- اَلْیَوْمَ اَ کْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا (
2- وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ سَیُرِیْکُمْ اٰیٰتِہٖ فَتَعْرِفُوْنَہَا(
قرآن کی اِن آیتوں میں ایک خاص فرق ہے، وہ یہ کہ پہلی آیت میں جو بات کہی گئی ہے،وہ صیغۂ حال (present tense)میں ہے- اور دوسری بات صیغۂ استقبال (future tense) میں کہی گئی ہے- اِس فرق سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ ایک ایسی بات ہے جو نزولِ قرآن کے زمانے میں حاصل ہوگئی- اِس کے برعکس، دوسری آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ بعد کے زمانے میں حاصل ہوگی، یعنی آفاق وانفس میں ظہورِ آیات-
سوال
الرسالہ میں آپ بار بار لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کو سیاسی ماڈل کے بجائے دعوتی ماڈل اختیار کرنا چاہیے- دعوتی ماڈل سے آپ کی مراد کیاہے، اِس کو واضح فرمائیں-(محمد امان اللہ، دہلی)
جواب
آج کل یہ حال ہے کہ جس شخص کے دل میں بھی کام کا جذبہ پیداہوتا ہے، وہ فوراً سیاسی انداز میں کام کرنا شروع کردیتاہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں کام کا سیاسی ماڈل بہت زیادہ معروف ہوگیا ہے۔ اِس بنا پر لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ سیاسی ماڈل کے سوا کسی اور ماڈل کا تصور نہیں کرپاتے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ کام کا سب سے زیادہ بہتر، اور سب سے زیادہ نتیجہ خیز ماڈل وہ ہے جس کو دعوتی ماڈل کہاجاسکتا ہے۔ دعوتی ماڈل سے مراد نظریاتی ماڈل ہے، یعنی ایک فکر یا ایک آئڈیالوجی کی بنیاد پر پُرامن جدوجہد کرنا۔ انسان ایک سوچنے والا وجود (thinking being)ہے۔ اِس لیے فکری ماڈل فوراً اس کو اپیل کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ داعی کے پاس اگر ایک حقیقی آئڈیالوجی ہو تو وہ انتہائی حد تک طاقت ور بن جائے گا۔ حقیقت پر مبنی فکر گویا ایک نظریاتی بم (ideological bomb) کی حیثیت رکھتا ہے، جو تمام طاقت ور چیزوں سے زیادہ طاقت ور ہے۔
سوال
الرسالہ میں آپ نے کئی بار لکھا ہے کہ مسلمانوں کو اپوزیشن کی سیاست سے بچنا چاہیے- براہِ کرم، اِس معاملے کی مزید وضاحت فرمائیں (محمدشارق، سری نگر)
جواب
سیاست چلتی ہے ٹکراؤ پر— یہ مقولہ سیاست یا پولٹکل ایکٹوزم (political activism) کو درست طور پر بتاتا ہے ۔ سیاست ٹکراؤ کا کلچر ہے۔ سیاست میں ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مد مقابل (rival) بنا کر اُس کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے۔ ابتداء ً یہ مہم پرامن طورپر شروع ہوتی ہے۔ بعد کو دھیرے دھیرے وہ نفرت اور تشدد اور جنگ تک پہنچ جاتی ہے، حتی کہ جب مقصد حاصل نہیں ہوتا تو وہ خودکش بم باری (suicide bombing) جیسی تباہ کن صورتِ حال اختیار کرلیتی ہے۔
اپوزیشن کی سیاست (politics of opposition) بلاشبہہ شیطان کی سنت ہے۔ آدم کی تخلیق کے وقت ابلیس نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں جو روش اختیار کی اور جس طرح اُس نے آدم کے آگے جھکنے سے انکار کیا، وہ آج کل کی زبان میں گویا اپوزیشن کی سیاست تھی۔ اِس روش کا نتیجہ یہ ہوا کہ شیطان ابدی طورپر اللہ کی رحمت سے محروم ہوگیا۔ اُس کے لیے یہ مقدر ہوگیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے نفرت اور عداوت میں جئے اور کبھی وہ اُس سے نکل نہ سکے۔ابلیس کا یہ انجام انسانی نسلوں کے لیے ایک سبق ہے۔ انسانوں میں سے جو لوگ اپوزیشن کی سیاست کریں، وہ ابلیس کی اِسی سنت پر چل رہے ہیں۔ اپوزیشن کی سیاست دوسرے لفظوں میں، منفی سیاست ہے، اور منفی سیاست سے کبھی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا، نہ سیاسی لیڈروں کے لیے اور نہ اُن لوگوں کے لیے جو ایسے لیڈروں کا ساتھ دیں۔کشمیر اور دوسرے مقامات کے مسلمان جو اپوزیشن کی سیاست میں مشغول ہیں، وہ ایسا کرکے ایک بہت بڑا رِسک (risk) لے رہے ہیں۔ یہ اللہ کی رحمت سے محرومی کا رِسک (خطرہ) ہے۔ اور بلاشبہہ اللہ کی رحمت سے محرومی اتنی بری چیز ہے کہ اُس سے زیادہ بری چیز اور کوئی نہیں۔
سوال
پیغمبر کے زمانے کے لوگوں کو پیغمبر کی صحبت کے ذریعے اللہ کی معرفت مل گئی تھی- سوال یہ ہے کہ پیغمبر کے بعد کے لوگوں کو یہ معرفت کیسے حاصل ہوگی- (ایک قاری الرسالہ، نئی دہلی)
جواب
کسی انسان کی سب سے بڑی دریافت یہ ہے کہ وہ اللہ کی معرفت حاصل کرے- اللہ کی معرفت کوئی پراسرار چیز نہیں- یہ علمِ انسانی (human knowledge) کا اعلی ترین درجہ ہے- جس آدمی کو حقیقی معنوں میں اللہ کی معرفت حاصل ہوجائے، وہ اس کی پوری زندگی میں شامل ہوجائے گی- وہ فکر سے لے کر عمل تک اس کی پوری شخصیت کی تشکیل کرے گی-غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ معرفت کے دو درجے ہیں — ایک ہے مبنی بر صحبت معرفت اور دوسرا ہے مبنی بر علم معرفت- پیغمبر کی زندگی میں جو لوگ پیغمبر پر ایمان لاتے ہیں، ان کو صحبتِ رسول کے ذریعے اللہ کی معرفت کا رزق حاصل ہوتا ہے- پیغمبر کے بعد بھی معرفت کی حیثیت ایک اعلی ایمانی مطلوب کی ہوتی ہے، لیکن پیغمبر کے بعد معرفت کے حصول کا ذریعہ علم ہے- علمِ وحی بھی اور علمِ انسانی بھی-
واپس اوپر جائیں