خبرنامہ اسلامی مرکز— 198
1 - یکم ستمبر کے انقلاب کی یادگار کے طور پر لیبیا ایمبیسی کی طرف سے ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام یکم ستمبر 2009 کی شام کو نئی دہلی کے ہوٹل (Hayatt Regency Hotel) کے بال روم میں ہوا۔ اس کی دعوت پر سی پی ایس کی ٹیم کے تین افراد ن اس میں شرکت کی۔ یہاں مختلف ممالک کے سفرا اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد موجود تھے۔انھوں نے ان کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
2 - پازیٹیو تھنکرس فورم (بنگلور) کے تعاون سے گل برگہ (کرناٹک) کے حلقۂ الرسالہ سے وابستہ افراد نے ستمبر 2009 میں چند دعوتی پروگرام کئے۔ یہ پروگرام گل برگہ کے حسب ذیل مقامات پر کئے گئے— فنکشن ہال، میڈیل کالج، کمپیوٹر کالج، انجنیئرنگ کالج، آیورویدک کالج ۔ اِس موقع پر انھوں نے وہاں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات سے دعوتی خطاب کیا اور بڑے پیمانے پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ مطالعے کے لیے دیا ۔
3 - کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو (اٹلی) کے سالانہ پروگرام کے طورپر پولینڈ کے شہر کریکو (Cracow) میں
4 - بعد سلام عرض ہے کہ ناچیز کو آپ کا بھیجا ہوا ماہ نامہ الرسالہ پابندی کے ساتھ موصول ہورہاہے۔ میں اس کو ایک ہی نشست میں پڑھ لیتا ہوں۔بلاشبہہ الرسالہ سے ہمیں جو رہنمائی ملتی ہے، اس کی کہیں نظیر نہیں۔ ماہ نامہ کے ہر صفحے میں ایک حیرت انگیز اور ایمان افروز سبق ہر مومن کے لیے موجود ہوتا ہے۔ یقینا پوری دنیاکے مسلمانوں کے لئے اصلاحی اور ذہنی تعمیر کا یہ ایک واحدذریعہ ہے۔ میں اس دعوتی مشن چلانے والے عالم کو لاکھوں سلام کرتا ہوں اور جب تک حیات باقی رہے گی، ان کے لیے دعا کرتا رہوں گا۔میری دیرینہ خواہش ہے کہ آپ کے ہفتہ وار کلاس میں کبھی شرکت کروں۔ میں آپ کا اپنا ہندستانی فوجی ہوں۔ اس وقت دہلی چھاؤنی میں مقیم ہوں۔ خدا کے فضل سے پروموشن کے مقابلاتی امتحان میں کامیاب ہوگیاہوں۔ مستقبل قریب میں چند ماہ کے cadre courseمیں جاؤں گا، پھر warrant officer کے رینک لگ جائیں گے۔ گھر کے سب خورد و کلاں آپ کو سلام عرض کرتے ہیں۔ (محمدآفاق عالم، دہلی چھاؤنی)
5 - الرسالہ جولائی 2009 ء کا شمارہ دیکھا۔ یہ شمارہ گجرات کے سفرنامہ پر مشتمل ہے جو بصیرت افروز ہے۔ اس شمارے کی خاص بات مولانا محمد ذکوان ندوی کی تحریر ’’تاثراتِ سفر‘‘ ہے، جو مجھے بہت خوب لگی اور اس کی ہر بات میرے قلب و ذہن میں اُتر گئی ہے۔میںنے اِس تحریر کو تین بار پڑھا۔ میرے لئے یہ تحریر اس وجہ سے بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے کیوں کہ بعض لوگ عموماً یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ الرسالہ کوئی علمی پرچہ نہیں ہے ، اس کی ہر تحریر میں اکابرین پر تنقید ہوتی ہے جس کی وجہ سے علماء اس کو قابل اعتنا نہیں سمجھتے۔ مگر یہ بصیرت افروز تحریر اُن کے اِس مغالطہ انگیز پروپیگنڈے کی مکمل تردید ہے۔ اِس تحریر سے واضح طور پرمعلوم ہوتا ہے کہ اہلِ علم کے یہاں الرسالہ اور خود حضرت مولانا کی کیا قدر ومنزلت ہے اور وہ مولانا کی تحریروں سے کس قدر استفادہ کر رہے ہیں۔ندوۃ العلماء لکھنؤ سے فارغ علماء پورے عالم اسلام میں معتبر اور اعتدال پسند مانے جاتے ہیں اور جب ندوہ میں علماء اور اساتذہ کا الرسالہ کے تئیں یہ حال ہو تو یہ اِس بات کو سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ دوسرے علماء بھی الرسالہ کو بڑے ذوق وشوق سے پڑھتے اور اس سے استفادہ کرتے ہوں گے۔ اس تحریر کے مطالعہ کے بعد مجھ کو مولانا عبد الباری ندوی کی اِس بات سے مکمل اتفاق ہوگیا ہے کہ ’’مولانا وحید الدین خاں جدید طبقہ کی طرف مبعوث ہیں‘‘ بلا شبہہ یہ بات سو فی صد درست ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالم اسلام کی شہرت یافتہ شخصیت حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی بھی الرسالہ اور مولانا وحید الدین خاں صاحب کی علمی وفکری صلاحیتوں کے معترف تھے اور وہ اس سلسلہ میں مثبت رائے رکھتے تھے۔ الرسالہ ستمبر 1995 ’’ یکساں سول کوڈ ‘‘کے عنوان سے خصوصی شمارے کے طورپر شائع ہوا تو اس شمارے کے حوالے سے ہندوستان کی اہم شخصیات کے متعدد خطوط الرسالہ ،اپریل 1996 میں شائع ہوئے تھے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں اور جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ الرسالہ کوئی عام پرچہ نہیں ہے ،بلکہ یہ اپنی نوعیت کا واحد پرچہ ہے اور ہر اعتبار سے اہلِ علم کی خصوصی توجہ کا باعث اور استفادہ کے لائق ہے۔ چناں چہ ان اہم خطوط میں سے یہاں مولاناسیدابو الحسن علی ندوی کے خط کا ایک حصہ نقل کیا جاتا ہے جس سے الرسالہ کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے:
’’ فاضل گرامی ومحب سامی، مولانا وحیدالدین خاں صاحب وفقہ اللہ لما یحب ویرضیٰ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اُمید ہے کہ مزاج بخیر ہوگا۔ الرسالہ بابت ستمبر 1995 چند دن ہوئے ملا۔ اس میںآپ کا فاضلانہ مضمون ’’یکساں سول کوڈ‘‘ مطالعہ میںآیا۔ ہمارے علم میں یہ پہلا فاضلانہ اورمبصرانہ مضمون ہے جس میں یونی فارم سول کوڈ کا عالمانہ، مبصرانہ جائزہ لیاگیا ہے، اور تقابلی مطالعہ، ماہرین فن اور قانون سازوں کے بیانات و تجزیہ کی روشنی میں اس کی سطحیت اور عدم ضرورت ثابت کی گئی ہے۔ آپ ہماری طرف سے اس پر دلی مبارک باد قبول فرمائیں۔ اگر اس کو الگ الرسالہ کی صورت میں شائع کردیں اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع ہو جائے تو بہت مفید ہوگا۔ انگریزی ترجمہ ماہرین قانون اور سپریم کورٹ کے ججوں کو بھیجا جاسکتاہے۔ اُمید ہے کہ آپ سنجیدگی سے اس پر غور فرمائیں گے اور عجلت سے کام لیں گے۔ ہم نے یہ نمبر محفوظ کرلیا ہے۔ وہ ایک مرجع اور ماخذ کی حیثیت سے کام دے گا۔ اُمید ہے کہ مزاج ہر طرح بعافیت ہوگا ۔ والسلام، طالب دعا ابو الحسن علی ندوی، 20 اگست 1995 ‘‘
کچھ لوگوں کو اس بات پر اشکال ہے کہ مولانا اپنے معاصر علماء کی علمی ودینی خدمات کا اعتراف نہیں کرتے ہیںاور اگر کسی معروف عالم دین کا انتقال ہوجائے تو وہ دوسطر بھی الرسالہ میںنہیں لکھتے ،مگر یہ سرتا سر ایک بے بنیاد بات اور صریح الزام ہے۔ اس الزام کے رد میں یہاں طوالت کے خوف سے میں دوبارہ اول الذکرشخصیت کی مثال پیش کرنا چاہوں گا۔جب مولانا ابو الحسن علی ندوی کا
’’مولانا ابو الحسن علی ندوی ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ ان کے اندر بیک وقت مختلف اور متنوع خصوصیات موجود تھیں۔ مولانا سید مناظر احسن گیلانی نے کہا تھا کہ یورپ میں جو کام اکادمی کرتی ہے وہ ہمارے یہاں ایک آدمی کرتاہے۔ مولانا ابو الحسن علی ندوی اسی قول کا ایک زندہ نمونہ تھے۔ وہ ایک فرد تھے، مگر انھوں نے کئی اداروں کے برابر کام کیا‘‘ (الرسالہ، مارچ 2000 ء صفحہ
’’تاثرات سفر‘‘ کے عنوان کے تحت لکھی گئی زیر نظرتحریر نے جو نہایت اہم معلومات فراہم کی ہے، وہ یہ ہے کہ اہل علم حضرات مولانا کی تحریروں خاص طورپرالرسالہ کو بڑی پابندی سے استفادہ کی غرض سے پڑھتے ہیں۔ اور اس سچائی کو ، خواہ وہ اس کا اظہار کریں یا نہ کریں اپنی جگہ تمام علماء یہ مانتے ہیںکہ مولانا فکری اعتبار سے موجودہ دورکے ممتاز اور مستند عالم دین اور قائد ملت ہیں اور انھوںنے جس طرح کی دینی ، علمی، اصلاحی، تعمیری اور فکری خدمات انجام دیں اور اسلام کو از سرِ نو دریافت کے طورپر نئی نسل کے سامنے رکھا اور اسے یہ احساس دلایا کہ اسلام کوئی فرسودہ اور ناقابلِ عمل مذہب نہیں ہے، بلکہ یہ بالکل آج کی چیزہے، وہ صرف انھیں کا حصہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولانا نے اس سلسلے میں عصری اسلوب میں ایسا طاقت ور لٹریچر تیار کیا ہے جو ہر اعتبار سے قابلِ استفادہ اور آنے والے علماء کے لئے دین کی تبلیغ کے سلسلے میں قابل تقلید نمونہ کی حیثیت رکھتا ہے(غلام نبی کشافی، سری نگر، کشمیر،
6 - امریکا کی جیل میں اصلاحی کام کرنے والے ادارے کی طرف سے ایک خط موصول ہوا۔ ادارے کی فرمائش پر اُن کو قرآن کا انگریزی ترجمہ ہدیۃً بھیج دیاگیا ہے۔ اس سلسلے میں ادارے کا خط درج ذیل ہے:
I volunteer at for the Philadelphia Prison Systems on State Road in Philadelphia, PA. Once a month I visit young teenagers from the age of 15-17. The majority of the young men I speak with say they are Muslims but do not have a Quran. I ordered (5) Qurans last week through Amazon (The Holy Qurna ISBN 81-7808-141-6) and I saw that they came from www.goodwordbooks.com. I would like to order 25 more to give to the students I visit. Thank you (Sister Deborah Saunders, Philadelphia, USA)
7 - امریکا سے ایک خط موصول ہوا۔ حسب فرمائش ان کے پتے پر قرآن کا انگریزی ترجمہ روانہ کردیا گیا ہے۔ یہاں خط کا ایک حصہ نقل کیا جاتا ہے:
Do you have any materials for free to offer to Muslim inmates in prison? I am a prison chaplain at Marion Correctional Institution in Marion, NC. We have a large and devout Muslim community here. (Chaplain Sehested, Philadelphia, USA)
8 - چیپلنس سروسز (امریکا) کی طرف سے قرآن کے انگریزی ترجمہ کے سلسلے میں ایک خط ملا۔ ادارے کو قرآن کی 200 کاپیاں ہدیۃً بھیج دی گئی ہیں۔ اِس سلسلے میں ادارے کے منیجر کا خط یہاں درج کیا جاتا ہے:
We received the 200 copies of the Quran translated by Maulana Wahiduddin Khan. Thank you so very much! we will certainly use these resources not only with our patients and their families, but also as a valuable source of information and healing to the chaplains and hospital staff. You have no idea how comforting it is to our Muslim patients to be able to give them a Quran for them to keep. And now, you have sent us enough Qurans to give to our patients at all three of the hospitals we serve in Berkeley and Oakland, California. Thank you again for your generosity, and may it return to you tenfold! (Karla Droste, office manager, Chaplaincy Services)
واپس اوپر جائیں