خبر نامہ اسلامی مرکز— 211
1 - امام حرم مکی ڈاکٹر عبد الرحمن السدیس کی آمد (مارچ 2011) کے موقع پر دہلی (رام لیلا میدان،جامع مسجد) میں مختلف مقامات بڑے اجتماعات ہوئے۔ سی پی ایس کے ممبران نے اِس موقع پر لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا۔ خاص طور پر سی پی ایس کے دو ممبران مسٹر رامش صدیقی (نئی دہلی) اور ڈاکٹر محمد اسلم خان (سہارن پور) نے امام حرم سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران امام حرم نے بتایا کہ اس وقت صدر اسلامی مرکز کی دو کتابیں اُن کے زیر مطالعہ ہیں: الإسلام یتحدی اور التذکیر القویم فی تفسیر القرآن الحکیم۔
2 - سہارن پور (یوپی )کے جے وی جین (J.V. Jain) کالج کے ہال میں
3 - سی پی ایس کے تحت چلائے جانے والے القرآن مشن (Al-Quran Mission)سے وابستہ مسٹر علی (کلکتہ) نے مارچ 2011 کے آخری ہفتے میں افریقہ اور برازیل (ساؤتھ امریکا) کا سفر کیا۔ اِس موقع پر انھوں نے وہاں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔
4 - نئی دہلی کے انڈیا ہیبی ٹیٹ سنٹر میں
The Story is the Distance Between You and the Truth
یہاں ایک اسٹوری بک کے مجموعہ (Teaching Stories) کا افتتاح کیاگیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس میں شرکت کی اور موضوع پر انگریزی زبان میں آدھ گھنٹہ تقریر کی۔ اِس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔
5 - مارچ 2011 کے آخری ہفتے میں کولمبو انٹرنیشنل اسکول (سری لنکا) میں ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں سی پی ایس (ممبئی) سے وابستہ مسٹر ہارون شیخ نے لوگوں تک قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دیگر دعوتی لٹریچر پہنچایا۔ یہاں دوسرے ممالک کے نمائندے بھی موجود تھے۔ اِن لوگوں نے خوشی کے ساتھ قرآن کو حاصل کیا۔
6 - سہارن پور (یوپی) کے حلقہ سی پی ایس نے
7 - الحکمہ فاؤنڈیشن (نئی دہلی) کے تحت
8 - سہارن پور(یوپی) کے نیشنل میڈیکل کالج کے سالانہ جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر3 اپریل 2011 کو مقامی لوگوں کے علاوہ، یوپی گورنمنٹ کے منسٹر اور ایجوکیشنل ڈپارٹمنٹ کے دیگر نمائندوں کو قرآن کاانگریزی ترجمہ دیاگیا۔ اِسی طرح 10 اپریل 2011 کو مذکورہ کالج میں ڈاکٹر ہینی مین ڈے کے موقع پر بھی آئے ہوئے مہمانوں کو کالج کے پرنسپل ڈاکٹر اسلم خان کی طرف سے قرآن کا ترجمہ دیاگیا۔
9 - سی پی ایس (نئی دہلی) کی طرف سے 5 اپریل 2011 کو نئی دہلی کے لودھی گارڈن میں اسپریچول آؤٹنگ کا ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں سی پی ایس دہلی اور دیگر مقامات کے افراد شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز نے یہاں فطرت کے ماحول میں ایک تربیتی خطاب کیا۔ گارڈن میں مغرب کی نمازِ باجماعت کے ساتھ یہ پروگرام ختم ہوا۔
10 - سہارن پور (یوپی) کے ’’پیس ہال‘‘ میں
آکسفورڈ سنٹر آف اسلامک اسٹڈیز (Oxford Centre of Islamic Studies) ۔
مارک فیلڈ سنٹر، لیسٹر (Markfield Centre, Leicester) ۔
ایس او ایس، لندن یونی ورسٹی (School of Oriental and African Studies)
Peace and spirituality are two phases of a single coin— peace is external culture of spirituality, and spirituality is internal culture of peace.
سنتِ رسول، ختم نبوت، آزادیٔ فکر اور اسلام (
عورت دورِ جدید میں، توکل علی اللہ، اسلام اور مساوات (20 اپریل 2011 )
دعوت الی اللہ، طلاق اسلام میں، اسلامی جہاد کیا ہے (3 مئی 2011 )
18 - سی پی ایس (نئی دہلی) کی ٹیم نے 10 مئی 2010 کو دہلی کے لودھی گارڈن میں اسپریچول آؤٹنگ کا ایک پروگرام کیا۔ یہ ٹیم کے افراد کے لیے ایک تربیتی پروگرام تھا۔ یہاں صدر اسلامی مرکز نے ٹیم کی دعوتی ذمے داری کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ تقریر کے بعد مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی گئی۔
19 - نئی دہلی کے ایم سی سی ایس (Media Content & Communications Services) ٹی وی چینل کے نمائندہ مسٹر روی کانت نے
20. Mr. Sajid Anwar, Roorki, Uttra Khand: Recently I was on a business trip to Europe. This journey was utilized for Dawah purpose. I visited 3 countries – Belgium, Iceland and Germany during 28th March to 2nd April, 2011. During the travel, I gave the Quran, The prophet of Peace and other dawah literature to many people, mainly technical experts, there. The people accepted with thanks. Comments of some of the recipients are as below:
ک I can not attend the meeting in the evening as today in the morning I have got a copy of the Quran which I have to read. (Prof Valdimer, Iceland)
ک I was planning to buy Quran for long. Thanks for presenting. I will definitely read this and other books and send you my comments. (Mr. Thor, Director, Iceland)
ک After reading the chapter “Negative Thinking Alien to Islam” of The Prophet of Peace, she commented – Truly nice, excellent!. So clearly explained without any ambiguity. (Ms. Shifa Modak, England)
1- I wanted to thank Maulana Wahiduddin Khan for his tireless effort to address us first as human beings then as religious creatures. (Joseph Salomonsen, lecturer Comparative Religion, Norway)
2- I found a book written by Maulana Wahiduddin Khan in my house. It was in the library, and someone else must have been reading it. Anyway, now I am reading it. It's called - The Reality of Life. I've already read bits of it, and really like it. Maulana speaks with so much practical wisdom. (Gaurja Prashar, Jesus and Mary College, Delhi University)
ک غالباً 1985 کی بات ہے۔ مجھے الرسالہ کا پہلا شمارہ اپنے ایک ساتھی نور الاسلام خاں کے ذریعے انجینئرنگ کالج کے ہوسٹل میں ملا۔ میں نے جب الرسالہ کی ورق گردانی شروع کی تو ’’درخت‘‘ کے موضوع پر لکھے گئے ایک مضمون نے مجھ کو بے حد متاثر کیا۔ اِس میں ایک اہم سبق یہ تھا کہ ہمیں درخت کی طرح کاربن ڈائی آکسائڈ لے کر دوسروں کو آکسیجن مہیا کرنا چاہئے۔ بعد میں میری زندگی تقریباً اسی اصول پر چلتی رہی اور اِس طرح نہ صرف میری خاندانی زندگی، بلکہ سوشل لائف بھی مستحکم رہی۔ کشمیر میں کشیدہ صورت حال کے دوران الرسالہ نے ہمیں کم از کم ذہنی طورپر زندہ رکھا۔ صاحب الرسالہ نے 1975 میں اپنی کتاب ’’الاسلام‘‘ میں لکھا تھا کہ: ’’میرے اطمینان کے لئے یہ کافی ہے کہ میں نے سچائی کو کم ازکم فکری طور پر دریافت کرلیا۔ اب شاید میں یہ کہتے ہوئے مرسکتا ہوں کہ : ’’میرے بعد آنے والے کو پچھلی سیڑھیاں نہیں بنانی پڑیں گی‘‘ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ صاحب الرسالہ ابھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور اب اِس دعوتی مہم کی کامیابی کا انحصار تمام تر ہماری انفرادی کوششوں پر ہے، کیوں کہ صاحب الرسالہ نے اپنا حق ادا کردیا۔ ایسے لٹریچر کی فراہمی جو کسی بھی انسان کو اپنے نیچر کی آواز محسوس ہوتی ہے، ایسے لٹریچر کی فراہمی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام آج کی چیز ہے۔ سائنٹفک اسلوب میں دعوتی لٹریچر کی فراہمی یقینا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کے لئے پوری انسانیت صاحب الرسالہ کی احسان مند ہے۔(انجینئر الطاف حسین شاہ،کشمیر)
ک میں بچپن سے تلاشِ حق میں سرگرداں تھا۔ میرے کالج کے تین سال اِس طرح گزرے کہ بے چینی اور بے قراری کے عالم میں رونا میرا معمول بن چکا تھا۔ ایک دن بک اسٹال پر میری نظر ماہ نامہ الرسالہ پر پڑی۔ الرسالہ کو ہاتھ میں لیا اور اس کے مضامین دیکھے تو اچانک مجھ پر یہ احساس غالب ہوا کہ خدا نے میرے لئے ہدایت اور روشنی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ اس کے فوراً بعد میں نے الرسالہ کی ایجنسی لی۔ کیوں کہ میں اِس نتیجہ پر پہنچا کہ الرسالہ سے وابستہ ہونے کا مطلب الرسالہ کی دعوتی مہم میں شریک ہونا ہے۔ الرسالہ سے پہلے، شاعری اور افسانہ کی طرف میرا رجحان تھا۔ اب میں شاعری بھی بھول گیا اور افسانہ بھی۔ الرسالہ سے پہلے میں بحث و تکرار کا عادی تھا۔ الرسالہ نے مجھے الفاظ سے نکال کر معنی کی دنیا میں پہنچا دیا۔ الرسالہ فکر کیا ہے۔ الرسالہ فکر دراصل پیغمبرانہ مشن کی صحیح ترین تعبیر اورتشریح ہے جو عقل وفطرت کے ناقابلِ تردید دلائل اور شواہد پر مشتمل ہے۔ اِس تعبیر اور تشریح کی بنیاد قرآن وحدیث اور سیرتِ رسول ہے۔ فکرِ الرسالہ، قرآن کے مرکزی تصور، توحید، رسالت، آخرت اور دعوت کی تفسیر ہے۔الرسالہ فکر کے اجزائے ترکیبی ہیں— سچائی کی تلاش، بے آمیز حق کی دریافت، معرفتِ خداوندی، عجز، تزکیۂ نفس اور دعوت الی اللہ۔ ان مرحلوں سے گزرے بغیر کوئی بھی شخص حقیقی معنوں میں خدا والا نہیں بن سکتا۔سچائی کیا ہے۔ ایک سوال کانام نہیں ہے، بلکہ ہزاروں سوالوں کے مجموعے کا نام ہے۔ الرسالہ فکر اِن تمام سوالوں کا جواب ہے۔ الرسالہ فکر آدمی کے ذہن سے تمام پردوں کو ہٹا دیتا ہے، یہاں تک کہ آدمی ظاہری دنیا میں، باطنی دنیا کو دیکھنے لگتا ہے۔فکر الرسالہ ربانی حکمت اور ایمانی بصیرت کا خزانہ ہے جس میں دنیا کی حقیقی کامیابی اور آخرت کی حقیقی کامیابی کے راز پوشیدہ ہیں۔ الرسالہ فکرآدمی کے جینے کی سطح کو بدل دیتا ہے۔ وہ آدمی کو حقیقی اور لازوال خدا سے ملاتا ہے۔ اس گہرے تعلق باللہ کی علامت کے طورپرآدمی کو عینِ خاشع، یعنی گریہ والی آنکھ حاصل ہوتی ہے۔ اِس کے بارے میں صاحبِ الرسالہ کا ایک قول یہ ہے: ’’اللہ کا ڈر آدمی کی آنکھوں کو اشک آلود کردیتا ہے۔ مگر اللہ کے لئے بھیگی ہوئی آنکھ ہی وہ آنکھ ہے جس کے لئے یہ مقدر ہے کہ اُس کو ٹھنڈک حاصل ہو، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘‘۔
مجھے الرسالہ کے آتشیں الفاظ میں صاحبِ الرسالہ کے دل کی دھڑکنیں صاف سنائی دے رہی ہیں۔ اتنے اعلیٰ الفاظ میں کلام کرنا ایک سچے داعیِ حق اور عارف باللہ کے سوا کسی اور کے لئے ممکن نہیں۔ کیا آپ الرسالہ کے مضامین میں اُن آتشیں کیفیات کو محسوس کررہے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحبِ الرسالہ بے پناہ دردوغم میں پگھل رہا ہے۔ کیا آپ الرسالہ کے اوراق میں جا بجا اُن لاتعداد بھونچالوں کی شدت محسوس کررہے ہیں جو صاحبِ الرسالہ کے سینے میں امنڈ رہے ہیں۔ خدا نے ہمارے لئے مشکل ترین کام کو آسان ترین بنایا ہے۔ خدا نے دورِ جدید میں مولانا وحید الدین خاں صاحب سے تجدید واحیائِ دین کا کام لیا ہے۔ ان کے ذریعے قرآن وحدیث اور اُس سے متعلق انتہائی طاقتور لٹریچر وجود میں آگیاہے، جو دنیا کے ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں پر حجت قائم کرنے کے لئے کافی ہے۔داعیانِ حق کی جماعت میں شامل ہونے کے لئے ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ ہم اس لٹریچر کو حق سے غافل یا حق سے بے خبر بندگانِ خدا تک پہنچا دیں، تاکہ ہم خدا کی بارگاہ میں بری الذمہ ہوں اور لوگوں کے لئے عذر کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے۔ ہمارے لئے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم اِس خدائی کام کو اپنا ذاتی مسئلہ بنائیں، بلکہ اِس سے بڑھ کر ہم اس کو اپنی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیں۔ اگر ہمارا یہ واقعی فیصلہ ہے تو ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ آج تک ہم اِس دعوتی مہم میں اپنی آمدنی کا کتنا حصہ خرچ کرچکے ہیں۔ اگر ہمارا جواب نفی میںہو، تو آج سے ہمیں شعوری طورپر یہ طے کرنا چاہیے کہ ہم اپنی آمدنی اور وسائل کا کتنا حصہ اس خدائی کام کے لئے وقف کرنے کو تیار ہیں۔ خدا کی بارگاہ میں ’’کرنے‘‘ کی قیمت ہے، نہ کہ صرف ’’کہنے‘‘ کی۔ (نذیر الاسلام، کشمیر)
واپس اوپر جائیں