موجودہ شکل میں رمضان کے مہینے میں روزہ رکھنے کا طریقہ تقریباً 1400 سال پہلے شروع ہوا۔ سب سے پہلے رسو ل اور اصحابِ رسول نے یہ عمل کیا۔ پھر مسلم تاریخ میں یہ عمل مسلسل طور پر چلتا رہا، اور آج تک جاری ہے۔ دنیا میں بسے ہوئے تقریباً تمام مسلمان ہر سال رمضان کے مہینے میں روزہ رکھتے ہیں، اور قرآن پڑھتے ہیں۔ گویا اسلام کی تاریخ میں ایک عمارت بن رہی ہے ۔ہر سال اس کی ایک storey بنتی ہے۔ مشہور قول کے مطابق، ہجرت کے دوسرے سال رمضان کا روزہ فرض کیا گیا۔ اس اعتبار سے اس سال اس بلڈنگ کی 1440 ویں storey تعمیر ہوگی ہے۔ جو لوگ اِس رمضان میں سچی اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھیں گے، ان کو اس تاریخی پراسس کا حصہ بننے کا موقع ملے گا، جس تاریخ کی ابتدا خود رسول اور اصحاب رسول نےکی تھی۔
روزہ کیا ہے۔ روزہ کو عام طور پر ایک پر اسرار عبادت سمجھا جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہ کر روزہ کو ایک رسم کے طور پر گزار لیا جائے، تو اس کا ثواب مل گیا۔ یہ روزہ کا کمتر اندازہ (underestimation) ہے۔ روزہ بظاہر ایک پر مشقت عمل ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک اعلی درجے کی تربیت ہے۔
یہ تربیت کس طرح ہو سکتی ہے۔ انسان یہ تربیت قرآن کے ذریعے حاصل کرسکتا ہے۔ رمضان نزولِ قرآن کا مہینہ ہے(البقرۃ،
یہ سب وہ عطیات(نعمتیں) ہیں، جو رات دن انسان کوخود بخود ملتی رہتی ہیں۔ لیکن یہ نعمتیں چونکہ یک طرفہ طور(unilateral) پر سپلائی کی جارہی ہیں۔اس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اس کو فار گرانٹیڈ (for granted) لے لیتا ہے، اور جو اعتراف (acknowledgement) مطلوب ہے، اس کو وہ کر نہیں پاتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ انسان لپ سروس کے طور پر الحمد للہ، وغیرہ زبان سے ادا کر دیتا ہے۔ گہرے سنس میں انسان ان نعمتوں کا اعتراف نہیں کرپاتا۔
روزہ ایک ریگرس(rigorous) ٹریننگ ہے، تاکہ انسان جس چیز کو فار گرانٹیڈ لیے ہوئے ہے، اس کو وہ خالق کے عطیے کے طور پر ڈسکور کرے۔ روزے کی یہ اسپرٹ رسول اللہ کے اس واقعے میں ملتی ہے۔ حدیث کی کتابوں میں آتا ہے کہ رسول اللہ روزہ رکھ کر جب شام کو افطار کرتے، تو آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلتے تھے ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّہُ(سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2357)۔ یعنی پیاس بجھ گئی، رگیں تر ہوگئیں، اور اجر ثابت ہوگیا ان شا ء اللہ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ کوevaluate کرنے کا تخلیقی (creative)طریقہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ روزہ رکھ کر آدمی کے اندر انعاماتِ الٰہی کے احساس کا طوفان برپا ہوجائے، روزہ رکھ کر آدمی کے اندر وہ زندہ احساس پیدا ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے۔ ورنہ روزہ ایک رسم ہے، جس کا کوئی فائدہ نہ دنیا میں ہے، اور نہ آخرت میں۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
سائنسی مطالعے کےمطابق، تقریباً تیرہ بلین سال پہلے بگ بینگ کے ذریعے موجودہ دنیا کی تاریخ کا آغاز ہوا۔ یہ ستاروں اور کہکشاؤں سے بھری ہوئی ایک وسیع کائنات تھی۔ اس کائنات میں ملکی وے کے اندر وہ دنیا تھی، جس کو ہم سولر سسٹم نام سے جانتے ہیں۔ اسی شمسی نظام کے ایک سیارہ زمین پر انسان آباد ہے۔ یہ ایک پوری طرح کسٹم میڈ ورلڈ ہے۔ اسی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ انسان اس زمین پر بسہولت آباد ہو، اور یہاں آزادی کے ساتھ اپنی ایک تہذیب بنائے۔
واپس اوپر جائیں
میں نے1999 میں مانچسٹر (انگلینڈ )کا سفر کیا ۔ اس سفر میں میں نے چند دن ایک نوجوان عرب میزبان العارف احمد کے یہاں قیام کیا تھا۔وہ وہاں رفیوجی (asylum) کی حیثیت سے ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہاں رہتے ہوئے ایک واقعہ میرے ساتھ پیش آیا۔ یہ واقعہ یہاں نقل کیا جاتا ہے
جمعرات کی صبح ،
بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ تھا ۔ لیکن میرے ذہن میں یہ ایک عظیم واقعے (supernatural event) میں کنورٹ ہو گیا۔ چنانچہ اس بچی کی معصوم آواز سن کر مجھے ایسا لگا جیسے خدا نے گویا میرے پاس ایک فرشتہ بھیجا ہے، تاکہ وہ میری ضروریات کو دریافت کرے، اور اسے پورا کرے۔اسی لمحے ایک حدیث میرے ذہن میں آئی: رب العالمین روزانہ آسمانِ دنیا پر آتا ہے ، اور پکارتا ہے کیا کوئی ہے جو محتاج ہو ،اور مجھ سے مانگے ،تو میں اسےعطا کروں؟ (صحیح البخاری، حدیث نمبر
’’ کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟ ‘‘ ایک چھوٹا سا سوال تھا جو ایک معصوم بچی نے پوچھا تھا ۔ لیکن میرے اندرونی وجود میں ایک بہت بڑا انقلاب برپا کرنے کے لیے یہ سوال کافی تھا۔وہ انقلاب جسے جدید ٹرم میں برین اسٹارمنگ (brainstorming) کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔
تھوڑی دیر کے لیے میں نے محسوس کیا کہ کائنات کی تمام چیزیں میرےمائنڈ کی اسکرین پرموجود ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا روحانی تجربہ تھا، جس کا اظہار انسانی الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ابتدا میں یوں لگتا تھا، جیسے خدا ایک "ننھے فرشتے" کے ذریعہ کہہ رہا ہے ـاے میرے بندے ، کیا تم کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟ پھر اس عمل میں گویا پوری کائنات بھی شامل ہوگئی۔
میرے سامنے بظاہر ایک چھوٹی سی لڑکی تھی ،جو مجھ سے پوچھ رہی تھی کیا آپ کو کسی چیز کی ضرورت ہے؟لیکن اپنے توسیعی معنی کے اعتبار سے یہ ایسا ہی تھا جیسے پوری کائنات ایک ہی سوال پوچھ رہی ہو۔ وسیع آسمان کہہ رہا ہو کیا آپ کو کسی پناہ گاہ کی ضرورت ہے؟میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، تاکہ میں آپ کو پناہ گاہ مہیا کروں ، کیونکہ خدا نے مجھے ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ چمکتا ہوا سورج کہہ رہا ہو کیا آپ کو روشنی کی ضرورت ہے؟ میں یہاں روشنی کی فراہمی کے لیے اور آپ کے اندھیرے کو دور کرنے کے لیے حاضر ہوں۔ اونچے پہاڑ اعلان کررہے ہوں کیا آپ انسانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونا چاہتے ہیں؟ میں یہاں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، تاکہ آپ کو انسانیت کا اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں مدد کروں۔ بہتے ہوئےدریاکی روانی یہ کہہ رہی ہو کیا آپ کو اپنے تزکیہ کے لیےروحانی غسل کی ضرورت ہے؟ میں یہاں آپ کو روحانی غسل دینے کے لیے حاضر ہوں۔ ہوا کے جھونکےپوچھ رہے ہوں کیا آپ خدا کے عجائبات (wonders) کو دیکھنے کے لیے کائنات کی سیر کرنا چاہتے ہیں؟ آپ کے لیے اس روحانی سفر پر جانے کے لیے میری پشت موجود ہے۔
درخت سرگوشی کر رہے ہوں کیا آپ ہماری طرح کی نمو پذیر اور مثبت شخصیت رکھنا پسند کریں گے؟ ہم یہاں آپ کی خواہش کو حقیقت بنانے کے لیے نمونہ کی حیثیت سےموجود ہیں۔ ان کی شاخوں پر پھل اور ان کی پتیاںاعلان کررہی ہوں اگر آپ اپنی شخصیت کے لیے فکری اور روحانی غذا (intellectual food)کی خواہش رکھتے ہیں، تو ہم آپ کو اس کی فراہمی کے لیے حاضر ہیں۔
جب یہ سین میرے دماغ میں چل رہا تھا، تو میں نے پرندوں کے چہچہانےکو سنا، جو گویا یہ پیغام دے رہے تھے اے خدا کے بندے! یہاں تمھارے لیے خوشخبری ہے، اگر تمہیںکوئی ضرورت ہے، تو خدا نے پوری کائنات تمھاری ضروریات کو پورا کرنے کے بنایا ہے۔ خدا اتنا فیاض ہے کہ اس نے ساری کائنات کو دن رات تمھاری خدمت میں حاضر رہنے کے لیے پیدا کیا ہے۔ پوری کائنات تمھارے لیے کسٹم میڈ کائنات (custom-made universe) ہے۔ مزید یہ کہ اگر آپ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں تو وہ آپ کو ان سب سے بھی ایک بڑا انعام عطا کرے گا، یعنی ابدی جنت، جہاں نہ کوئی خوف ہوگا،اور نہ وہ غمگین ہوں گے (الانعام،
پھر میرے ذہن میںقرآن کی یہ آیت آئی:وَآتَاکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَأَلْتُمُوہ (
واپس اوپر جائیں
قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے یا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّہَ یَجْعَلْ لَکُمْ فُرْقاناً (
مفسر طبری نے فرقان کا مطلب ان الفاظ میں بیان کیا ہے فُرْقَانٌ یُفَرِّقُ فِی قُلُوبِہِمْ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ، حَتَّى یَعْرِفُوہُ وَیَہْتَدُوا بِذَلِکَ الْفُرْقَانِ (تفسیر الطبری،13/490)۔ یعنی فرقان وہ چیز ہے، جس سے انسان کے دلوں میں حق اور باطل کے درمیان فرق کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کی معرفت حاصل کرتے ہیں، اور اس فرقان کے ذریعے ہدایت حاصل کرتے ہیں۔
فرقان کا مطلب بصیرت یا معیار (criterion) ہے۔ بصیرت کسی آدمی میں وہ اندرونی روشنی پیدا کرتی ہے کہ وہ ظاہری پہلوؤں سے دھوکا کھائے بغیر ہر بات کو اس کے اصل روپ میں دیکھ سکے،وہ ادھر ادھر کے مغالطوں میں الجھے بغیر اصل حقیقت تک پہنچ جائے۔ فرقان کا یہ معاملہ ہر ایک کے ساتھ پیش آتا ہے، خواہ وہ ایک مذہبی آدمی ہو یا ایک تاجر اور ڈاکٹر اور انجینئر۔ فرقان اصلاً ایک انفرادی صفت ہے، یعنی حق و باطل میں امتیازکی یہ صفت ابتدا میں فرد مومن میں پیدا ہوتی ہے۔ پھر بڑھ کر وہ گروہِ مومن کی جماعتی صفت بن جاتی ہے۔ یہ صفت اس بات کی ضامن ہے کہ فردِ مومن یا جماعتِ مومن ہر حال میں سچے راستے پر قائم رہے۔ کوئی خارجی واقعہ اس کو حق کے راستے سے ہٹانے والا نہ بنے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ یہ صفت کسی آدمی کے اندر تقویٰ کے ذریعے پیدا ہوتی ہے۔ تقویٰ سے آدمی کے اندر اللہ کا ڈر پیدا ہوتا ہے۔ یہ ڈر ایک صاحبِ ایمان کو اللہ کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط (cautious) بنا دیتاہے۔ یہ صفت آدمی کو حق و باطل کے معاملے میں بہت زیادہ حساس بنادیتی ہے۔ وہ ہر معاملے میں بہت زیادہ جان لیتا ہے کہ کہاں وہ حق پر قائم ہے، اور کہاں وہ حق سے تجاوز (deviate) کرنے والا بن گیا ہے۔ اس معاملے میں اس کی حساسیت اس کے لیے ایک ایسی داخلی صفت بن جاتی ہے، جو اس کو ہر موقعے پر چوکنا کردے۔ وہ حق سے بھٹکنے کے قریب پہنچ کر اس سے باخبر ہوجائے، اور دوبارہ حق کے راستے پر آجائے۔
سائنسی ترازو (scientific balance) بے حد دِقت (precision)کے ساتھ دو چیزوں میں وزن کے فرق کو بتادیتا ہے۔ اسی طرح تقویٰ سے بننے والا فرقان گویا حق و باطل کا سائنٹفک ترازو ہے۔ وہ ادنیٰ فرق کے بغیر یہ بتادیتا ہے کہ کس چیز میں حق کا پہلو کتنا ہے، اور باطل کا پہلو کتنا ہے۔ اس معاملے کا ایک اظہار انسان کے کلام میں ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے اندر مبنی بر تقویٰ فرقان نہ بنا ہو، وہ الفاظ بولیں گے، لیکن ان کے الفاظ گہری معنویت سے خالی ہوتے ہیں۔ ان کے کلام میں وضوح (clarity) نہیں ہوتا۔ ان کے کلام میں لوگوں کو کوئی ٹیک اوے (takeaway) نہیں ملتا۔ ان کمیوں سے پاک صرف وہ کلام ہوتا ہے، جو صحیح معنوں میں کلام ِفرقان ہو۔
اگر آدمی کے اندر فرقان موجود ہو، تو اس کے اندر کرائٹیرین (criterion) موجود ہوگا، اس کے اندروہ حساسیت پائی جائےگی، جو اس کے کلام کو چھانٹ کر اس قابل بنائے گی کہ وہ صرف وہ بات کہے، جو حقیقتِ واقعہ کے عین مطابق ہو۔ جس کلام میں باطل کا ادنیٰ شائبہ بھی موجود ہو،تو صاحبِ فرقان انسان کا نفیس ذوق اس کو قبول کرنے سے انکار کردے گا۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں فرقان سے مراد معنوی تفریق ہے۔ دوسرے لفظوں میں متعلق (relevant) اور غیرمتعلق (irrelevant) کے فرق کا جاننا۔ تقویٰ کا رول اس معاملے میں یہ ہے کہ اللہ سے خوف کی بنا پر آدمی کے اندر حساسیت پیدا ہوتی ہے۔ وہ اس میں مانع بن جاتی ہے کہ وہ حق کے معاملے میں متعلق اور غیر متعلق بات کو ملا دے۔ وہ صرف الفاظ کو جانے، وہ اس بات کو نہ جانے کہ ایک قسم کی بات، اور دوسری قسم کی بات میں کیا فرق ہے۔ یہی معنوی تفریق یا معنوی امتیاز کا دوسرا نام فرقان ہے۔
معنوی تفریق کے لیے داخلی حساسیت کے علاوہ کوئی اور چیز مؤثر نہیں بن سکتی۔ اس داخلی حساسیت کا واحد راز تقویٰ، یعنی اللہ کا خوف ہے۔ جس آدمی کے اندر اللہ کی پکڑ کا ڈر پیدا ہوجائے، تو وہ اس سے بچے گا کہ وہ ایسی کوئی بات کہے، جو اللہ کے یہاں قابلِ قبول نہ ہو۔ مثلاً قرآن میں اس نوعیت کی ایک مثال وہ ہے، جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے إِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبَا وَأَحَلَّ اللَّہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا (
اصل یہ ہے کہ تقویٰ کے نہ ہونےسے انسان کے اندر سے حساسیت ختم ہوجاتی ہے، اور جب حساسیت نہ ہو، تو وہ اسی قسم کی بات بولنے لگتا ہے۔ مثلاً لوہا اور روئی کے درمیان مادی فرق ہوتا ہے، اس فرق کو وہ ہاتھ سے چھو کر جان لیتا ہے۔ لیکن معنوی فرق اس سے مختلف ہے۔ معنوی فرق کو وہی انسان جان سکتا ہے، جو اللہ سے ڈرتا ہے، اور اللہ کے سامنے پیش ہونے سے کانپتا ہے۔ مادی فرق کو انسان ہاتھ سے چھو کر جان سکتا ہے۔ لیکن معنوی فرق کا مسئلہ پہچان کا ہے۔ یہ پہچان صرف داخلی حساسیت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی حدیثیں امتِ مسلمہ کے حال اور مستقبل کے بارے میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: أُمَّتِی أَمَّةٌ مَرْحُومَةٌ، قَدْ رُفِعَ عَنْہُمُ الْعَذَابُ، إِلَّا عَذَابَہُمْ أَنْفُسَہُمْ بِأَیْدِیہِمْ(المعجم الاوسط للطبرانی، حدیث نمبر 6909)۔ یعنی میری امت رحم کی ہوئی امت ہے۔ اس سے عذاب اٹھا لیا گیا ہے، سوائے اس کے کہ ان کا خود کو اپنے ہاتھوں سے عذاب دینا۔اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ امت محمدی پر وہ عذاب نہیں آئے گا، جو پچھلی امتوں پر آیا تھا۔ یہ بات امت مسلمہ کے لیے بے حد اہم ہے۔ مگر یہ بات امت کی فضیلت کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ وہ امت کی ذمے داری کے اعتبار سے ہے۔
پچھلی امتوں کی ذمے داری محدود مدت کے اعتبار سے تھی۔ مگر امتِ مسلمہ کی ذمے داری ختم نبوت کی بنا پر قیامت تک کے لیے ہے۔ کیوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جو ساتویں صدی کے رُبع اول میں آئے، وہ اللہ کے منصوبے کے مطابق آخری پیغمبر (Final Prophet)تھے۔ اب آپ کے بعد کوئی اور پیغمبر آنے والا نہیں۔ لیکن جہاں تک پیغمبر کے مشن کی بات ہے، وہ بدستور قیامت تک جاری رہے گا۔اب مسلمان اللہ کے پیغام کو اس کے بندوں تک پہنچانے کے لیے درمیانی وسیلہ ہیں۔ یعنی اللہ کا پیغام جورسول کے ذریعے امت مسلمہ کو پہنچا ہے، اس پیغام کورسول کی نیابت میں قیامت تک آنے والی تمام قوموں کو پہنچانا امت مسلمہ کی ذمے داری ہے ۔ یہ اس دعوتی مشن کا تسلسل ہے، جس کو پیغمبر اسلام نے اپنے زمانے میں جاری کیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی نبوت شخصی وجود کے اعتبار سے ساتویں صدی کے لیے تھی، لیکن پیغام کے اعتبار سے وہ پوری تاریخ کے لیے ہے۔ اس بنا پر امتِ محمدی کو امتِ وسط کہا گیا ہے، یعنی پیغمبر اور اقوامِِ عالم کے درمیان کی امت۔ ایک اور آیت میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَأُوحِیَ إِلَیَّ ہَذَا الْقُرْآنُ لِأُنْذِرَکُمْ بِہِ وَمَنْ بَلَغَ (
امتِ مسلمہ کے بارے میں قرآن کا یہ اعلان بہت زیادہ بامعنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت کے لیے جائز نہیں کہ وہ پیغمبرانہ مشن، دعوت الی اللہ کے علاوہ کسی اور کام میں اپنے آپ کو مصروف کرے۔ دعوت الی اللہ کا کام ان کے لیے فرض عین کی حیثیت رکھتا ہے، نہ کہ فرض کفایہ ۔ امتِ محمدی اگر پیغمبر کے مشن کو اپنا مشن بنائے تو اس پر اللہ کا وہ وعدہ پورا ہوگا، جو قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:وَاللَّہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ (
اس کا مطلب یہ ہے کہ امتِ محمدی کو ختم نبوت کے بعدتبلیغ ما انزل اللہ کے اصول کو اپنی قومی منصوبہ بندی کا مرکزی اصول بنانا ہوگا۔ اس کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اس معاملےمیں دوسرے پہلوؤں کو اللہ کے حوالے کریں، اور اپنے آپ کو اسی ایک مقصد کے لیے خاص کرلیں۔ امت محمدی اگر اس اصول کو اپنی قومی پالیسی بنائے، تو یہ اس کی جانب سے اللہ کی نصرت کرنےکے ہم معنی ہوگا۔ اس وقت امت اس خدائی فیصلے کی حق دار بن جائے گی، جو قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہےوَلَیَنْصُرَنَّ اللَّہُ مَنْ یَنْصُرُہُ (
ختم نبوت کے بعد کے زمانے میں فطرت کے قانون کے مطابق بار بار ایسا ہوگا کہ امت کے لیے مختلف قسم کے ڈسٹریکشن پیش آئیں گے۔ لیکن امت کے رہنماؤں کا یہ فرض ہوگا کہ وہ ہر مرحلے میں متعلق (relevant) کو غیر متعلق (irrelevant) سے الگ کریں۔ وہ مختلف حالات سے دوچار ہونے کے باوجود یہ کرتے رہیں کہ غیر متعلق کو نظر انداز کریں، اور صرف متعلق کی بنیاد پر اپنا قومی منصوبہ بنائیں۔ یہ اصول قیامت تک ان کی حفاظت اور کامیابی کا ضامن ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: یَاأَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللَّہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ (
اللہ رب العالمین کا یہ منصوبہ کیا ہے، وہ قرآن و حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ ایک مفسر نے قرآن کو کتابِ انذار بتایا ہے۔ انذار کا مطلب ڈرانا نہیں ہے، بلکہ باخبر کرنا ہے۔ قرآن میں بتایا گیاہے کہ اللہ نے اپنے نبیوں کو منذر بنا کر بھیجا(النساء،
اس معاملے میں دوسری اہم بات حدیث کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہے۔ حدیث کی اکثر کتابوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ اس دین کی تائید (support) غیر اہل اسلام کے ذریعے کرے گا (مسند احمد، حدیث نمبر 20454، المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر14640)۔ ان احادیث میں تائیدِ دین کا لفظ آیا ہے۔ اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ قرآن سے آئیڈیالوجی دریافت کرے، اور تائید کے معاملے میں کسی تفریق کے بغیر ہر گروہ سے تائیدی ذرائع دریافت کرے، اور ان کو بھر پور طور پر استعمال کرے۔
مثلاً آئیڈیالوجی کو قرآن کے مطالعے سے معلوم کرنا، اور کمیونی کیشن کے ذرائع کو سیکولر لوگوں سے لینا، اور ان کو اپنے منصوبوں میں استعمال کرنا۔
واپس اوپر جائیں
انسانی سماج کو ایک بہتر سماج بنانے کے لیے جو تعمیری اصول ہیں، انھیں اصولوں کو اخلاقی اقدار (moral values) کہا جاتا ہے۔ اِن اخلاقی اقدار کو اختیار کرنے سے انسانی سماج بہتر سماج بنتا ہے، اور ان کو چھوڑنے سے انسانی سماج برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔ سماج کو اگر ٹرین سے تشبیہ دی جائے تو اخلاقی اقدار گویا ریل کی وہ پٹریاں ہیں، جن کے اوپر سماجی ٹرین بھٹکے بغیر اپنا سفر کامیابی کے ساتھ طے کرتی ہے۔
یہ اخلاقی اقدار بنیادی طورپر یہ ہیں— امن، انصاف، محبت، سچائی، رواداری، خیر خواہی، عدم ِتشدد، صبر ،تواضع، عالمی اخوت اور اخلاقی سلوک، وغیرہ۔ یہ اخلاقی اقدار اتنے زیادہ مسلّم ہیں کہ تمام مذہبی اور روحانی نظاموں میں یکساں طورپر ان کی خصوصی تعلیم دی گئی ہے، اور ان کو انسانی ترقی کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔
اقدارکا یہی مجموعہ ہے، جس کو اخلاق کہا جاتا ہے۔ یہی اخلاقی اصول انسان کے اندر اعلیٰ شخصیت بناتے ہیں۔ انھیں اخلاقی اصولوں کی پیروی سے کوئی سماج بہتر سماج بنتا ہے۔ انھیں اخلاقی اصولوں کی پیروی سے وہ سماجی مقاصد حاصل ہوتے ہیں، جن کو ہم انسانیت کی فلاح کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔
خدا نے اِن اقدار کو انسان کی فطرت میں اخلاقی حِس (moral sense) کے طور پر ودیعت کردیا ہے۔ ہر انسان اِن اخلاقی اصولوں کا شعور پیدائشی طورپر رکھتا ہے۔ تمام مذہبی اور روحانی نظام اِس کی تلقین کرتے ہیں۔ اسی کے ساتھ خدا نے کائنات کو اِس طرح بنایا ہے کہ وہ انسان کے لیے گویا ایک اخلاقی ماڈل بن گئی ہیں۔ جو چیز انسان کو خود اپنے ارادے کے تحت عمل میں لانا ہے، وہ چیز بقیہ کائنات میں خدا کے براہِ راست کنٹرول کے تحت زیر عمل آرہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان اور کائنات دونوں کا اخلاقی نظام ایک ہے۔ بقیہ کائنات میں اس کا نام قانونِ فطرت (law of nature) ہے، اور انسانی دنیا میں اس کو اخلاقی اقدار (moral values) کہاجاتا ہے۔
انسان اور کائنات دونوں کو ایک خدا نے پیدا کیا ہے۔ دونوں کی کارکردگی کے لیے اس نے ایک ہی قانون مقرر کیا ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ بقیہ کائنات میں یہ قانون براہِ راست طورپر خود خدا نے نافذ کررکھا ہے۔ لیکن انسان کو خدا نے یہ عزت دی ہے کہ اس کو آزاد اور خود مختار بنایا ہے۔ بہتر انسانی سماج بنانے کا راز یہ ہے کہ انسان اسی خدائی قانون کو خود اپنے ارادے سے اپنی زندگی میں نافذ کرے۔
خلامیں اَن گنت ستارے ہیں۔ ہر ایک نہایت تیزی کے ساتھ وسیع خلا میں گردش کررہے ہیں۔ لیکن ان کے درمیان کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ اِس کا راز یہ ہے کہ ہر ستارہ اور سیارہ اپنے اپنے مقرر مدار(orbit) پر گردش کرتا ہے۔ کوئی ستارہ دوسرے ستارے کے مدار میں داخل نہیں ہوتا۔ گردش کا یہ انضباطی اصول، ستاروں کے درمیان ٹکراؤ ہونے نہیں دیتا۔ یہی اصول، انسان کو اپنی زندگی میںاختیار کرنا ہے۔ ہر ایک کو چاہیے کہ وہ اپنی سرگرمیوں کو اپنے دائرے کے اندر محدود رکھے۔ اس کے بعد انسانی سماج میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہوگا۔ یہی فارمولا پیس فُل سماجی تعلقات کا واحد فارمولا ہے۔
ہوائیں چلتی ہیں، تو وہ نہایت تیزی کے ساتھ میدان سے گذرتی ہیں۔ یہاں سر سبز پودے ہوتے ہیں۔ یہ پودے ہواؤں کے طوفان میں نہیں ٹوٹتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ ہوا کے مقابلے میں کبھی نہیں اکڑتے۔ جب ہو اکا جھونکا آتا ہے، تو پودا فوراً جھک کر ہوا کو گزرنے کا موقع دے دیتا ہے۔ یہی طریقہ انسان کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ سماجی زندگی میں اکڑ کا انداز اختیار کرنے کےبجائے سمجھوتہ اور ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرے۔
پہاڑوں پر برف پگھلتی ہے، اور اس سے چشمے جاری ہوجاتے ہیں۔ چشمے کے راستے میں بار بار پتھر آتے ہیں، مگر چشمہ ایسا نہیں کرتا کہ پہلے وہ پتھر کو اپنے راستے سے ہٹائے ،اور پھر اس کے بعد اپنا سفر جاری کرے۔ بلکہ وہ مُڑ کر پتھر کے کنارے کی طرف سے اپنا راستہ بنا لیتا ہے، اور آگے کی طرف رواں ہوجاتا ہے۔ یہی طریقہ انسان کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ٹکراؤ کو اوائڈ کرکے اپنا راستہ بنائے۔ نہ کہ وہ رُکاوٹ سے ٹکراؤ شروع کردے۔
درخت انسان کے لیے آکسیجن نکالتا ہے، اور ہوا اس کو لے کر اُسے انسان تک پہنچاتی ہے۔ لیکن درخت اور ہوا اپنے اس عمل کے لیے انسان سے اس کی کوئی قیمت نہیں مانگتے ۔ایسا ہی انسان کو کرنا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے لیے نفع بخش بنے، اور اپنے اس عمل کے لیے لوگوں سے کسی قیمت کا تقاضا نہ کرے۔
گائے خدا کی ایک زندہ انڈسٹری ہے۔ گائے کو اس کا مالک گھاس کھلاتا ہے، لیکن گائے اس کے بدلے میںاپنے مالک کو دودھ لوٹاتی ہے۔ وہ دوسروں سے غیر دودھ (non-milk)کو لیتی ہے، اور پھر ان کو اپنی طرف سے دودھ (milk) کا تحفہ واپس کرتی ہے۔ اسی طرح انسان کو چاہیے کہ جب بھی اس کو کسی سے منفی تجربہ ہو، تواس کے جوا ب میں وہ اس کے ساتھ مثبت سلوک کی روش اختیا رکرے۔
کسی مقام پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہوں، اور وہ زمین پر پڑے ہوئے دانے چُگ کر خوش خوش اس کو کھارہی ہوں۔ ایسی حالت میں آپ ان کی طرف ایک کنکر پھینک دیں۔ اس کے بعد آپ دیکھیں گے کہ چڑیاں اُڑ کر درخت کی شاخ پر پہنچ گئیں، اور دوبارہ وہاں چہچہانے لگیں۔ نفرت اور شکایت جیسی چیز کسی چڑیاکے دل میں کبھی جگہ نہیں پاتی۔ یہی طریقہ انسان کا ہونا چاہیے۔ انسان کو بھی ایسا بننا چاہیے کہ جب کوئی شخص اس کو ستائے، یا اس کو کوئی نقصان پہنچائے، تو وہ نفرت اور شکایت کو اپنے دل میں جگہ نہ دے۔ وہ منفی حالات کے باوجود اپنے آپ کو مثبت نفسیات پر قائم رکھے۔
دنیا کی تمام چیزیں قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) کی حامل ہیں۔ اِس مادّی دنیا میں کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اِس معاملے میں استثنا کی حیثیت رکھتی ہو۔ مثلاً ستارے ہمیشہ اپنی مقرر رفتار پر پوری حتمیت کے ساتھ قائم رہتے ہیں۔ ببول کے بیج سے ہمیشہ ببول کا درخت نکلتا ہے، اور انگور کے بیج سے ہمیشہ انگور کا درخت، وغیرہ۔ یہی کردار انسان کا بھی ہونا چاہیے۔ انسان کو بھی اسی طرح قابلِ پیشین گوئی کردار کا حامل ہونا چاہیے۔ قابلِ پیشین گوئی کردار یہ ہے کہ کسی صورتِ حال میں ایک حقیقی انسان سے جو امید کی جائے، وہ ہمیشہ اُس پر پورا اُترے۔
سورج مسلسل طورپر روشنی اور حرارت سپلائی کرتا ہے۔ اِس معاملے میں وہ اپنے اور غیر کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتا۔ وہ سب کو یکساں طورپر روشنی اور حرارت کا خزانہ پہنچاتا رہتا ہے۔ یہی کردار انسان کا بھی ہونا چاہیے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ہر ایک کے لیے نفع بخش بنے۔ اپنوں کے لیے بھی اور غیروں کے لیے بھی۔ دوستوں کے لیے بھی اور دشمنوں کے لیے بھی۔ خوش گوار تعلق والوں کے لیے بھی اور ناخوش گوار تعلق والوں کے لیے بھی۔ یہی کسی انسان کے لیے اعلیٰ معیاری اخلاق ہے۔
شہد کی مکھی اپنے مقام سے اُڑ کر جنگل میں جاتی ہے۔ یہاں بہت سی مختلف قسم کی چیزیں ہیں۔ مثلاً لکڑی، کانٹا، جھاڑی اور گھاس، وغیرہ۔ لیکن شہد کی مکھی انتخابی طریقہ اختیار کرتی ہے۔ وہ ہر دوسری چیز سے اعراض کرکے سیدھے اُس پھول تک پہنچتی ہے، جہاں سے اس کو میٹھا رس لینا ہے۔ یہی انتخابی طریقہ انسان کو بھی اختیار کرنا چاہیے۔ اس کو سماج میں اِس طرح رہنا چاہیے کہ وہ غیر مطلوب چیزوں سے اعراض کرے، اور وہ ہر ناپسندیدہ چیز سے دور رہتے ہوئے اپنے مطلوب تک پہنچ جائے۔
انسان اور بقیہ کائنات میں ایک فرق ہے۔ وہ یہ کہ بقیہ کائنات نے جس کردار کو مجبورانہ طورپر اختیار کررکھا ہے، اُسی کردار کو انسان خود اپنی آزادی کے تحت اختیار کرے۔بقیہ کائنات مجبورانہ اخلاق کی مثال ہے۔ مگر انسان کو اختیارانہ کردار کا نمونہ بننا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ بقیہ کائنات کے لیے نہ کوئی انعام ہے، اور نہ کوئی سزا۔ لیکن انسان کے لیے خدا کا قائم کردہ قانون یہ ہے کہ جو شخص اِس مطلوب کردار کو اختیار نہ کرے، وہ خدا کی طرف سے سزا پائے گااور جو شخص اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتے ہوئے اس مطلوب کردار کا حامل بن جائے، اس کو خدا کی طرف سے ابدی انعام کا مستحق قرار دیا جائے گا۔ یہ امتیازی انعام اِس کائنات میں صرف انسان کے لیے مقدر ہے۔ کیوں کہ انسان خود اپنے اختیار سے وہ مطلوب روش اختیار کرتا ہے، جس کو بقیہ کائنات مجبورانہ طورپر اختیار کیے ہوئے ہے۔
واپس اوپر جائیں
انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے غیر معمولی صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک صلاحیت یہ ہے —اپنی نااہلی کو اہلیت میں کنورٹ کرنا، اپنے نہ ہونے کو ہونا بنانا۔ مثلاً کوئی آدمی اگر دیکھنے یا سننے کی صلاحیت کھودے، تو اس کی فطرت کے اندر ایک نیا عنصر جاگتا ہے۔ جو اس کو زیادہ سوچنے والا انسان بنادیتا ہے۔ اس طرح وہ اپنی نااہلیت کو اہلیت میں تبدیل کرلیتا ہے۔
اس کی ایک تاریخی مثال معروف انگریزی شاعر جان ملٹن (1608-1674) کی ہے۔ وہ
The greatest epic poem in the English language...a work of unparalleled imaginative genius that shapes English literature even now. (www.bbc.com, Why You should Read the Paradise Lost, by Benjamin Ramm, 19 April 2017)
جدید دور میں جو چیزیں دریافت ہوئی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ انسان کے اندر کچھ مخفی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ حتی کہ اہلیت سے بظاہر محروم لوگوں کے اندر اہلیت کے نئے اسباب موجود ہوتے ہیں۔ چنانچہ موجودہ زمانے میں ایک مستقل شعبہ بن گیا ہے کہ انسان کی چھپی ہوئی صلاحیت کو استعمال میں لایا جائے، یعنی ڈس ایبلڈ کو ڈفرینٹلی ایبلڈ بنانا۔ موجودہ زمانے میں ترقی یافتہ ملکوں میں ایسے لوگوں کے لیے خصوصی انتظام ہوتا ہے۔
فطرت کے اس عطیے کا ایک پہلو یہ ہے کہ ایسے عورتوں یا مردوں کے اندر اضافی محرک (additional incentive) فطری طور پر پیدا کردیا جاتا ہے۔ ایسے افراد کی بہترین مدد یہ ہے کہ ان کی اس چھپی ہوئی صلاحیت کو انھیں یاددلایا جائے۔ ان کے اندر یہ شعور جگایا جائے کہ وہ اپنی چھپی ہوئی صلاحیت کو تربیت دیں، اور اپنی بظاہر ناکامی کو کامیابی میں تبدیل کرلیں۔
ترقی یافتہ ملکوں میں یہ کام بہت بڑے پیمانے پر انجام دیا جارہا ہے۔ یونیورسٹیوں اور دوسرے اداروں میں ایسے تربیتی کورس چلائے جاتے ہیں، جن میں ہر پہلو سے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ ڈس ایبلڈ پرسن (disabled person)کو ایبلڈ پرسن بنایا جائے۔ انڈیا کے تعلیمی اداروں میں بھی ایسے شعبے قائم کیے گئے ہیں، جو فطری طور پر معذور لوگوں کے لیے ان کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو بیدار کریں، اور بظاہر معذور لوگوں کو غیر معذور بنائیں۔ قرآن میں فطرت کے اس پہلو کو دو مقام پر بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک مقام پر یہ آیت ہے وَفِی أَمْوَالِہِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ (
وسیع تر انطباق کے اعتبار سے، ان آیات اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے اندر اس قسم کی جو تعلیمات ہیں، ان کا مقصد یہ نہیں ہے کہ سماج میں مستقل طور پر دوقسم کے گروہ پیدا کیے جائیں، ایک محتاج لوگوں کا گروہ، اور دوسرا محتاج لوگوں کی مدد کرنے والا گروہ۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ فطرت کے نظام میں ایسا بار بار ہوتا ہے کہ کچھ لوگ فطری طور پر یا سماجی حالات کی بنا پر بظاہر معذور بن جاتے ہیں۔ اب سماج کا یا سماجی اداروں کا یہ کام ہے کہ وہ تعلیم و تربیت کے ذریعے ایسے لوگوں کی اپ لفٹ (uplift) کا انتظام کریں، ان کو معذورکے درجے سے اٹھا کر غیر معذور کے درجے میں شامل کریں۔ موجودہ زمانے میں ترقی یافتہ ملکوں میں یہ کام بہت بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ اہلِ اسلام کو چاہیے کہ وہ ان کوششوں کو جانیں، اوران کو اپنے سماجی نظام میں شامل کریں۔
Making the Disabled Abled
Minding the language of differently abled with this new DU curriculum
University’s English department is likely to add disability literature as part of its revised curriculum for the undergraduate courses. The new course is expected to be given to colleges as an elective in both the undergraduate and master’s degree programmes. According to a member of the English department, "The idea behind the new course is to make the undergraduate students view literature through the lens of disability and to evolve in them a fresh critical perspective for reading literary representations and to enable them to explore various forms of literary representations of disability. This will help make them aware of the different ways in which disability figures and operates in a literary narrative."
In short, this course aims to introduce the undergraduate students to the fundamental tenets of literary and cultural disability studies with the intention of bringing about a change in the way they have traditionally responded to disability and disabled people. Over the past two decades, literary and cultural studies have opened up new spaces from where the traditional notion of disability as a negative difference in relation to normalcy can be challenged. Raj Kumar, head of the department of English, said that they are looking to make the new syllabus "inclusive." The objective of disability studies, therefore, he said, was to "include literature from marginal sections to give students a fresh perspective."
On the MA course, already approved by DU’s Standing Committee, faculty member Anil Aneja said it will "promote sensitivity and understanding regarding disability" among future researchers and teachers by engaging students and will "familiarise students with historical outlook, disability theories and issues in relation to socio-cultural context and disability representations in literature."
The department said that by the end of this course, the students should be able to gain an understanding of issues and concerns of persons with disabilities who are only now being included in the mainstream higher education system, both in terms of numbers and as voices in the academic curriculum. HoD Kumar added that courses on caste are also being planned at both the BA and MA levels. (The Times of India, New Delhi, April 3, 2019, p. 4)
واپس اوپر جائیں
کام کیا ہے۔کام نام ہے ممکن مواقع کو اپنے لیے اویل کرنا۔یعنی حالات کو پڑھ کر اپنے لیے نقشہ بنانا، اور اس کے لحاظ سے کام کرنا۔ رسول اللہ کی زندگی سے یہی معلوم ہوتا ہے۔جب آپ مکہ میں رہے،تو مکہ کے لحاظ سے کام کیا، اور جب مدینہ گئے تو مدینہ کے لحاظ سے کام کیا۔
مثلاً آپ نے مکہ میں تیرہ سال تک مشن کا کام کیا۔ مگر آپ نے مکہ میں بتوں کو نہیں توڑا،اور نہ ہی ان بتوں کے خلاف کوئی بیان بازی کی۔ اس کے برعکس، آپ نے یہ کیا کہ بتوں کی زیارت کے لیے آنے والے آڈینس (audience)کو دعوت دی۔ یعنی آپ کو یہ سمجھ میں آیا کہ مکہ میں دعوت کے کام کا موقع ہے، لیکن کعبہ سےبتوں کو ہٹانا قابل عمل نہیں ہے۔ اس لیے آپ نے وقتی طور پر ان بتوں کو اپنے حال پر باقی رکھا، اور بتوں کی زیارت کے لیے تمام عرب سے آنے والے آڈینس کے درمیان دعوت کا کام جاری رکھا۔
دنیا کا نظام اس طرح بنا ہے کہ یہاں ہر صورتِ حال میں کام کے مواقع موجود رہتے ہیں (الانشراح،
اس دنیا میں منصوبہ بند کام کا نام کام ہے۔جو کام غیر منصوبہ بند انداز میں کیا جائے، وہ اپنے انجام کے اعتبار سے کوئی کام ہی نہیں۔ جب بھی ایسا ہو کہ آپ کا کوئی اقدام عملاًبے نتیجہ رہ جائے، تو ہرگز کسی دوسرے کو الزام نہ دیجیے، بلکہ خود اپنے منصوبے کی خامی تلاش کیجیے۔ اپنے منصوبے کی خامی کو درست کرکے آپ دوبارہ کامیابی تک پہنچ سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
فرقہ بندی دراصل غلو کا نام ہے۔ اختلاف ایک فطری حقیقت ہے، نہ کہ پرابلم۔ اس دنیا میں غیر اختلافی سماج نہیں بن سکتا۔ اس لحاظ سے اختلاف بذاتِ خود کوئی مسئلہ نہیں۔ اختلاف صحت مند سوچ کی علامت ہے۔ زندہ لوگوں میں اختلاف ایک امر فطری ہے۔لیکن اختلاف کو ڈائلاگ کی حد میں رہنا چاہیے۔اختلاف کو نزاع کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے، جو کہ فرقہ بندی کا سبب ہوتا ہے۔
اختلاف (difference) کے معاملے میں ہمیشہ دو طریقے ہوتے ہیں— غلو کا طریقہ، ٹالرنس کا طریقہ۔ غلو کا طریقہ یہ ہے کہ یہ سمجھا جائے کہ مختلف مسالک فکر کے درمیان ایک ہی طریقہ صحیح ہے، دوسرے تمام طریقے غلط ہیں، ان کو ختم ہوجانا چاہیے۔اس کے برعکس،دوسرا طریقہ رواداری یا وسعتِ نظری کا طریقہ ہے، یعنی یہ سمجھنا کہ جو اختلاف ہے، وہ تنوع (diversity)کا معاملہ ہے۔ جس کا عملی فارمولا اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے — ایک کی پیروی ، سب کا احترام :
Follow one, respect all
فقہی اختلاف کی بنیاد پر جو فرقے بنے ہیں، ان کا سبب یہی غلو(extremism) ہے۔ اختلاف اس وقت برائی بنتا ہے، جب کہ وہ غلو کی وجہ سے تفرق کا سبب بن جائے۔ قرآن میں اس کو ان الفاظ میں بیان کیا گیاہے:مِنَ الَّذِینَ فَرَّقُوا دِینَہُمْ وَکَانُوا شِیَعًا کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْہِمْ فَرِحُونَ (
اس معاملے کو سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے، تو وہ یہ ہوگا کہ اختلافات جس سے تفریق پیدا ہوتی ہے، وہ زیادہ تر جزئی معاملات میں ہوتے ہیں۔ جزئی معاملات میں صحیح طریقہ ہے میرا مسلک بھی درست ہے، اور تمھارا مسلک بھی درست۔ جب طرفین کے درمیان یہ مزاج ہو، تو دونوں فریق ایک دوسرے کو ٹالریٹ (tolerate) کرنے کا مسئلہ سمجھیں گے، نہ کہ حق اور ناحق کا مسئلہ۔
واپس اوپر جائیں
قربانی کی ایک صورت وہ ہے، جب کہ آدمی کو اللہ کے راستے میں مال دینا پڑے۔ اسی طرح قربانی کی ایک اور صورت یہ ہے کہ آدمی کو اللہ کے راستے میں جسمانی مصیبت اٹھانی پڑے۔ یہ بلاشبہ قربانی کی صورتیں ہیں۔ لیکن ایک قربانی وہ ہے، جب کہ آدمی کو اپنے فطری تقاضوں پر روک لگانا پڑے۔ اس کے فطری تقاضے پورے نہ ہوں، اس کے باوجود اللہ کی راہ میں اس کی استقامت پر فرق نہ آئے۔ اس کی فطری ضرورتیں پوری نہ ہوں۔ مگر وہ کسی شکایت کے بغیر اس کوبخوشی برداشت کرلے۔ اللہ کی راہ میں اس کو اپنے فطری تقاضوں کو دبانا پڑے۔ مگر وہ اس کو رضامندی کے ساتھ گوارا کرلے۔
قربانی کی یہ قسم ایک غیر معمولی قربانی ہے۔ ایسی قربانی کو جھیلنا، بلاشبہ ایک سخت مشکل کام ہے۔ لیکن کوئی بندہ اللہ کی راہ میں جب اپنی رضامندی سے ایسی قربانی کو برداشت کرے، تو اس پر اس کو بلاشبہ اجر عظیم عطا ہوگا۔ ایسی قربانی کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے، جب کہ اللہ کی راہ میں آدمی کو اپنا ایک رول ادا کرنا ہو۔ لیکن اس رول کو ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی سادہ زندگی (simple living) گزارے۔اپنی خواہشات پر کنٹرول کرے۔ اپنی فطرت کے مانگ کو پورا نہ کرنے پر راضی ہو جائے۔ اسلام کی تاریخ میں ایسی مثالیںموجود ہیں، اور ایسےہی لوگوں نے اپنے عمل سے اسلام کی عظیم تاریخ بنائی ہے۔
انھیں قربانیوں میں سے ایک قربانی رائے کی قربانی ہے۔ قربانی کی یہ قسم اجتماعی زندگی میں پیش آتی ہے۔ مثلاً آپ ایک مشن کے تحت ایک گروپ میں شامل ہیں۔ گروپ کے درمیان مشورے کے وقت مختلف تجاویز سامنے آتی ہیں۔ اب ضرورت ہوتی ہے کہ ان میں سےایک رائے کو لیا جائے، اور بقیہ رائے کو نظر انداز کردیا جائے۔ ایسے موقعے پر جو آدمی اجتماعی تقاضے کے تحت اپنی رائے کو ترک کرنے پر راضی ہوجائے، اس نے بلاشبہ ایک بڑی قربانی دی۔ کیوںکہ رائے ترک کرنے کے لیے آدمی کو اپنے ایگو کو قربان کرنا پڑتا ہے، اورایگو کی قربانی بلاشبہ بہت بڑی قربانی ہے۔
واپس اوپر جائیں
پیغمبر اسلام کی ایک دعا حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ اس کا ایک جزء یہ ہے: اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ... مِنْ خَلِیلٍ مَاکِرٍ عَیْنَہُ تَرَانِی وَقَلْبُہُ تَرْعَانِی إِنْ رَأَى حَسَنَةً دَفَنَہَا، وَإِذَا رَأَى سَیِّئَةً أَذَاعَہَا (الدعاء للطبرانی، حدیث نمبر 1339)۔ یعنی اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں چالاک دوست سے جس کی آنکھیں مجھ کو دیکھتی ہوں، اور اس کا دل میرے خلاف سوچتا ہو۔ اگر وہ کسی اچھائی کو دیکھے تو اس کو دفن کردے، اور اگر وہ کسی برائی کو دیکھے تو اس کو پھیلا دے۔
اس حدیث میںخَلِیل مَاکِر(چالاک دوست) سے مراد منافق انسان ہے۔علامہ المناوی (وفات 1621ء)نے اس کی شرح ان الفاظ میں کی ہے إنسان یظہر المحبة والوداد وہو فی باطن الأمر محتال مخادع(فیض القدیر، جلد2، صفحہ
ایسے انسان کی سب سے زیادہ تباہ کن عادت یہ ہوتی ہے کہ جھوٹی بات کرنا اس کے لیے محبوب بن جاتا ہے۔ اگر وہ کسی کے بارے میں بظاہر کوئی غلط بات سنے، تو وہ خوب عیب زنی کرے گا۔ اس کے برعکس، اگر اس کو کوئی اچھی بات ملے تو اس کو لوگوں سے بیان کرنااس کو پسند نہیں آئے گا۔اِس کے مقابلے میں دوسرا انسان وہ ہے،جو دوسروں کاخیر خواہ ہوگا۔ وہ بولے گا تو وہی بات بولے گا ،جو اس کے دل میں ہے۔ وہ کسی انسان کی اچھی بات کا چرچا کرے گا، ورنہ وہ اس کے بارے میں خاموش رہے گا۔ اِن میں سے پہلا کردار غیر ربانی کردار ہے، اور دوسرا کردار ربانی کردار۔
واپس اوپر جائیں
تجارت کو منصفانہ بنیاد پر قائم کرنا، شریعتِ الٰہی کا ایک اہم اصول ہے۔ اس سلسلے میں قرآن میں ایک بنیادی حکم یہ دیاگیا ہے کہ تجارتی سودے میں کوئی تاجر نہ کم تولے، اور نہ کم ناپے، بلکہ ناپ اور تول میں پوری طرح عدل سے کام لے۔ اس سلسلے میں قرآن کے چند حوالے یہ ہیں:
وَلَا تَنْقُصُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیزَانَ (
وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْیَاءَہُمْ (
وَلَا تُخْسِرُوا الْمِیزَانَ (
اس کے علاوہ قرآن کی سورہ المطففینمیں ایک اور حکم آیا ہے۔وہ آیات یہ ہیں وَیْلٌ لِلْمُطَفِّفِینَ۔ الَّذِینَ إِذَا اکْتَالُوا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ ۔ وَإِذَا کَالُوہُمْ أَوْ وَزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ ۔ أَلَا یَظُنُّ أُولَئِکَ أَنَّہُمْ مَبْعُوثُونَ۔ لِیَوْمٍ عَظِیمٍ۔ یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ (
تطفیف کا لفظی معنی ہےناپ تول میں کمی کرنا۔سورہ المطففین کے حکم اور دوسری سورتوں کے حکم میں بظاہر لفظی اعتبار سے مشابہت ہے، یعنی دونوں میں ناپ اور تول کی زبان استعمال کی گئی ہے۔ مگر دونوں میںایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ دوسری سورتوں میں دینے کے وقت یک طرفہ طورپر کم تولنے یا کم ناپنے کا ذکر ہے۔ مگر سورہ المطففین میں اس کے برعکس یہ کہاگیا ہے — وہ لوگ جو دوسروں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں، اور جب اُن کو ناپ کر یا تول کردیں تو گھٹا کر دیں۔
اس فرق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسری سورتوں میں تاجرانہ بد معاملگی سے منع کیا گیا ہے۔ مگر سورہ المطففین میں جو بات ہے، اُس کا تعلق تجارتی معاملے سے نہیں ہے۔ یہ دراصل ایک انسانی کردار ہے، جس کو ناپ اور تول کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں، جن کامزاج یہ ہو کہ اپنے معاملے میں اُن کا معیار کچھ ہو، اور دوسروں کے معاملے میں اُن کا معیار کچھ اور۔
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اُن کی اپنی ذات کا ذکر ہو تو وہ صرف اپنی خوبیاں بیان کریں، اور جب دوسرے کا معاملہ ہو تو وہ اُس کی صرف برائیاں بیان کریں۔ اپنے معاملے کو بیان کرنے کے لیے اُن کو ہمیشہ خوب صورت الفاظ مل جائیں، اور دوسرے کے معاملے کو بیان کرنے کے لیے اُن کے پاس صرف برے الفاظ ہوں۔ وہ اپنے آپ کو تو ہمیشہ خوش نام رکھنا چاہتے ہوں، مگر دوسروں کے معاملے میں انھیں صرف اُن کی بدنامی سے دلچسپی ہو۔ ایک طرف وہ اپنے کارناموں کا بھرپور اعتراف چاہتے ہوں، اور دوسری طرف اُن کے سوا جو لوگ ہیں، اُن کا ذکر اس طرح کریں ،جیسے کہ انھوں نے کوئی اچھا کام ہی انجام نہیں دیا۔
ان آیات میں ناپ اور تول کی زبان بطور تمثیل استعمال کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس پیمانے سے دوسروں سے لے رہاہے، اسی پیمانے سے اُسے دوسروں کو دینا بھی چاہیے۔ مثلاً دوسروں سے وہ اپنا اعتراف چاہتا ہے تو اُس کو بھی دوسروں کا اعتراف کرناچاہیے۔ دوسروں سے وہ چاہتا ہے کہ وہ اُس کو بدنام نہ کریں، تو اُس کو بھی چاہیے کہ وہ دوسروں کو بدنام کرنے سے پرہیز کرے۔ وہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ حق کے معاملے میں اُس کا ساتھ دیں تو اُس کو بھی اسی طرح دوسروں کا ساتھ دینا چاہیے۔وہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ اُس کے بارے میں وہی بات کہیں جو واقعہ کے مطابق ہو تو اُس کو بھی دوسروں کے بارے میں ہمیشہ مطابقِ واقعہ بات کہنا چاہیے۔
تاریخ کے اکثر نزاعات بدگمانی کی بنیاد پر ہوئے ہیں، اور بدگمانی کا سبب ہمیشہ یہی تطفیف ہوتا ہے۔ دو افراد یا دو گروہوں کے درمیان جب بھی نزاع ہوئی، تو اُس کا سبب ہمیشہ یہی تطفیف تھا۔ لوگوں نے جس کو اپنا حریف سمجھ لیا، اُس کی اچھائیوں کو بالکل نظر انداز کردیا۔ البتہ اُس کی حقیقی یا غیر حقیقی برائیوں کو ڈھونڈھ کر نکالا، اور اُس کو عوام کے درمیان خوب پھیلادیا— گھر کی انفرادی لڑائی سے لے کر باہر کی قومی لڑائیوں تک ہر جگہ یہی تطفیف کا معاملہ کام کرتا ہوا نظر آئے گا۔
واپس اوپر جائیں
زیرِ نظر مضمون کو 50 برس قبل صدر اسلامی مرکز نے تحریر کیاتھا، اور جماعت اسلامی ہند کے ایک اجتماع بمقام امین الدّولہ پارک، لکھنؤ میں
ہم ایک نئے عہد کے دروازے پر کھڑے ہیں۔ مستقبل کے مورّخ اسے ایٹمی دور سے تعبیر کریں گے، یا آئندہ کوئی مورخ ہی نہ ہوگا،جو انسانیت کی بربادی کی داستان قلم بند کرسکے۔ 2دسمبر 1942 کو جس ایٹمی قوت پر انسان نے قابو حاصل کیا ہے، اس میں دنیا کے لیے زندگی ہے یا موت۔ یہ ایک عظیم قوت ہے، جس سے مفید کام لیے جائیں، تو خوشی اور فارغ البالی کی ایک نئی دنیا بسائی جاسکتی ہے۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ یورینیم (Uranium)کے ایک ذرّے کے پھٹنے سے 10کرور وولٹ(volt) کی طاقت حاصل ہوتی ہے۔ چٹکی بھر مادّے میں اتنی قوت پوشیدہ ہے کہ اس سے ایک ریل گاڑی ساری دنیا کے چکر کاٹ لے۔
جو کام آج کئی لاکھ ٹن کوئلے سے لیا جاتا ہے، وہ صرف ایک پونڈ یورینیم کے ذریعے ممکن ہے۔ مثلاً ایٹمی قوت سے چلنے والا ایک سمندری جہاز بمبئی سے روانہ ہو، تو وہ ساری دنیا کا سفر کرکے واپس آسکتا ہے۔ راستے میں اسے دوبارہ ایندھن (Fuel)لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ یہ قوت کا ایسا اتھاہ خزانہ ہے، جو انسان کو بجلی، تیل اور کوئلے سے بے نیاز کرکے نہایت سستے داموں سارے کام انجام دینے کے قابل بنا سکے گا۔ مگر اس قوت کا سب سے پہلا استعمال 6 اگست 1945 کو ایک خوف ناک بم کی شکل میں ہوا، جس نے
یہ 10سال پہلے کی بات تھی۔ اب اس طاقت سے جو بم بنائے گئے ہیں، وہ اور بھی زیادہ ہولناک ہیں۔ امریکا کی ایک تازہ ترین اطلاع میں بتایا گیا ہے کہ ان بموں کو اگر کوبالٹ (Cobalt)کے خول میں رکھ کر داغا جائے، تو اس سے نہایت طاقت ور ریڈیائی لہروں (radioactive) والا بادل پیداہوگا۔ یہ بادل ہوا کے ساتھ ساتھ ہزاروں میل تک پھیل جائے گا، اور ان کے تباہ کُن اثرات سے کوئی جان دار چیز بچ نہ سکے گی۔
ایٹمی سائنس کے ماہر پروفیسر براؤن (Prof. Brown) نے کہا ہے کہ اگر اتحادیوں نے روس اور چیکوسلواکیہ(Czechoslovakia / Czech Republic) کی سرحد پر کو بالٹ بم گرایا تو ڈیڑھ ہزار میل چوڑے اور تین ہزار میل لمبے علاقے میں کوئی ذی روح باقی نہ رہے گا۔ لینن گراڈ (Lenin Grade)سے لے کر بحیرہ اسود کے شمال مغربی ساحل پر واقع اوڈیسا (Odessa) تک ،اور پراگ (Prague) سے کوہ یورال (Ural) تک موت کا سنّاٹا چھا جائے گا۔ شکاگو یونیورسٹی کے پروفیسر لیوس لارڈ (Prof. Lewis Lord)نے بتایا کہ ایک ٹن والے چار سو کوبالٹ بم کے پھٹنے سے پوری زمین پر زندگی کا نام و نشان مٹ جائے گا، اور صدیوں تک دنیا غیرآباد رہے گی۔
تیسری عالمی جنگ آج اسی طرح کے ایک خوفناک امکان کی حیثیت سے دنیا کے سرپر کھڑی ہے، اور اگر یہ جنگ ہوئی تو بقول ڈاکٹر رادھا کرشنن (وفات1975) ’’یہ روس اور امریکا کی جنگ نہیں ہوگی، بلکہ دنیا کے عدم اور وجود کی جنگ ہوگی‘‘۔ یہ وقت کا اہم ترین مسئلہ ہے، جس کا حل سوچنے میں دنیا کے بڑے بڑے لوگ لگے ہوئے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ تمام ایٹم بم سمندروں میں ڈال دیے جائیں۔ مگر ظاہر ہے کہ جولوگ کروروں اور اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپیے خرچ کرکے یہ خطرناک ہتھیار بنارہے ہیں، وہ کیا محض اتنا کہہ دینے سے انھیں سمندر میں پھینک دیں گے۔
کوئی کہتا ہے کہ عالمی حکومت قائم کرو۔ مگر دنیا کی مختلف قومیں جو ایک دوسرے کی دشمن ہورہی ہیں، کیا ان کو ملا کرکوئی بین الاقوامی حکومت (international state) قائم کی جاسکتی ہے۔ کوئی شخص بقائے باہم (co-existence) کا اصول پیش کرتا ہے۔مگر موجودہ حالات میں باہم مل کر رہنے کا نظریہ صرف روس اور چین کے لیے قابلِ قبول ہے، جواشتراکی جماعتوں کے ذریعے دنیا بھر میں اپنا جال بچھائے ہوئے ہیں، اور اپنے توسیعی ارادوں (programme of expansion) کے لیے جنگ سے زیادہ امن کے موسم کو مفید خیال کرتے ہیں —امریکا اور دوسرے جمہوری ممالک اس کو کسی طرح گوارا نہیں کرسکتے۔ کوئی صاحب فرماتے ہیں کہ دنیاکو امن اور جنگ میں سے ایک راستہ اختیار کرناہوگا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ دو میں سے کو ئی ایک ہی راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔ مگر آپ وہ کون سا اصول پیش کررہے ہیں ، جس سے دنیا تباہی کے بجائے امن کی راہ اپنائے۔
سوچئے! کیا اس طرح کی باتیں حالات کو درست کرسکتی ہیں۔ دنیا سائنس کی حیرت انگیز دریافتوں سے زندگی حاصل کرنے کے بجائے خود کشی کا سامان تیار کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ کیا یہ محض اس لیے ہے کہ اب تک کسی نے اس کے سامنے مذکورہ بالا قسم کی کوئی تجویز پیش نہیں کی تھی۔ اگر کوئی شخص ایسا سمجھتا ہے، تو وہ بہت بڑے دھوکے میں مبتلا ہے۔
یہ خوفناک صورتِ حال جو دنیا میں پیدا ہوگئی ہے، اس کی وجہ ہمارے نزدیک یہ ہے کہ آدمی ایک صحیح آئڈیالوجی کے بغیر زندگی گزار رہا ہے۔ اس کو لوہے اور بجلی کی سائنس تو آگئی۔ اس نے وہ علم تو حاصل کرلیا، جس سے وہ مادّے (matter)کے جوہر (atom) کو پھاڑ سکے، مگر خود اپنی سائنس سے وہ اب تک محروم ہے۔ سمندروں میں تیرنا اور فضا میں اڑنا اس نے سیکھ لیا، مگر وہ فن (art)اس نے نہیں جانا، جس سے زندگی کی گاڑی چلا کرتی ہے، جس سے انسانی کوششوں کا رُخ متعین ہوتاہے، جو ایک انسان اوردوسرے انسان ، ایک قوم اور دوسری قوم کے درمیان حقوق وفرائض کا صحیح تعین کرتے ہیں۔ انسان نے اتنی بڑی بڑی دوربینیں (telescopes) ایجاد کیں، جن کا حال یہ ہے کہ وہ 18 ہزار میل کے فاصلے پر جلتی ہوئی ایک موم بتی کو بھی دیکھ لیتی ہیں۔ مگر خود انسان کیا ہے، اور دنیا کے اندر اس کی حیثیت کیا ہے، اس کو وہ اب تک نہ جان سکا۔
اس نے ایسی حسابی مشین (Eniac) بنائی، جو گھٹانے اور جوڑنے کے 10ملین سوالات صرف پانچ منٹ میں مکمل کردیتی ہے۔ سب سے پہلا سوال جو دوسری جنگ عظیم کے دوران اس مشین نے صرف دو گھنٹے میں حل کیا، وہ اتنا بڑا تھا کہ اسے حل کرنے میں ریاضی کے دو تربیت یافتہ ماہروں کو 50 برس تک کام کرنا پڑتا ۔ مگر خود انسانی زندگی کے مسائل وہ اب تک حل نہ کرسکا۔ ہر نیا ’’ازم‘‘ (ism)جو ایجاد کیا جاتا ہے، وہ مسائلِ زندگی کو کچھ اور الجھا دیتا ہے۔
انسان نے سائنس کے ذریعے بڑے بڑے انجن والے جہاز(ship) بنائے، جن پر وہ سمندروں میں سفر کرتے ہیں۔ اس نے لوہے کی پٹریاں بچھائیں، جن پر ریلیں دَوڑتی ہیں۔ اس نے تاراور بے تار برقی کا وہ عظیم سلسلہ قائم کیا ،جس پر انسان کی آواز اپنا راستہ بھولے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہے۔ مگر خود انسانی زندگی کے لیے راہِ عمل کیا ہو، وہ کس سمت میں چلے اور کس سمت جانے سے بچے، اس کا کوئی واضح نقشہ ابھی تک اسے نہیں ملا۔
اس نے ایسے اسٹیشن قائم کیے، جو فضا میں اڑنے والے ہوائی جہازوں کو کنٹرول کرتے ہیں۔ مگر انسان کو کنٹرول کرنے والا کوئی نظام وہ ابھی تک دریافت نہ کرسکا۔ اس نے ایسے قوانین بنائے، جو آٹو میٹک ٹیلی فون اکسچینج (automatic telephone exchange) کے اندر لاکھوں کی تعداد میں پھیلے ہوئے تار کو نہایت باقاعدگی کے ساتھ باہم جوڑتے رہتے ہیں، مگر وہ ایک گھر کے دو قریب ترین آدمیوں کو بھی ایک رشتے میں باندھنے کا اصول معلوم نہ کرسکا، اورحالت یہ ہے کہ آج ایک عورت کسی مرد سے نکاح کرتی ہے، اور کل اس لیے وہ طلاق لے لیتی ہے کہ رات کو مرد کے خرّاٹے کی آواز اسے پسند نہیں آئی۔
سفر اور مواصلات(communication) کے جدید ترین ذرائع نے ساری دنیا کو ایک کردیا ہے۔ آپ ہوائی جہاز سے اڑ کر چند گھنٹوں میںایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکتے ہیں۔ ایک شخص نیو یارک میںٹیلی فون اٹھا کر دنیا کے کسی بھی ملک کے آدمی سے بات کرسکتا ہے۔ مگر اس کے باوجود دریاؤں اور پہاڑوں کی حد بندی سے انسانیت آزاد نہیں ہوئی۔ سمندر کی مچھلیاں اٹلانٹک (Atlantic Ocean)سے بحرالکاہل (Pacific Ocean)اور بحر ہند (Indian Ocean)تک سفر کرتی ہیں، اور ان میں کوئی جنگ برپا نہیں ہوتی۔ فضا کی چڑیاں ایک موسم ایشیا میں گزارتی ہیں، اور دوسرے موسم میں وہ یورپ چلی جاتی ہیں۔ مگر ایک ملک کا آدمی دوسرے ملک کے لیے اجنبی کی حیثیت رکھتا ہے ،اور ایک قوم دوسری قوم کو ہڑپ کر لینا چاہتی ہے۔
دراصل یہی وہ سب سے بڑی کمی ہے، جو آج ساری دنیا کو لاحق ہے۔ مشرق ہو یا مغرب ، روس ہو یا امریکا سب کے سب اسی ایک چیز کے محتاج ہیں۔ دنیا کا مستقبل اب اسی ایک سوال پر منحصر ہے۔ اگر اس نے کوئی صحیح آئڈیالوجی پالیا ہو، تو یہ دنیا جنت کا نمونہ بن سکتی ہے اور اگر یہ صحیح آئڈیالوجی نہ ملا، تو پھر کوئی چیز دنیا کو ایک ہولناک تباہی کے انجام سے نہیں بچا سکتی۔
دنیا میںزندگی کگزارنے کااصل مسئلہیہ ہے کہ آدمی کس طرح دنیا میں رہے، اس کی کوششوں کا رخ کیا ہو، اور وہ کون سی شخصیت ہو، جو مختلف انسانوں کے درمیان فیصلہ کرنے اور انھیں باہم جوڑے رکھنے کا کام کرے۔ مثلاً ریل گاڑی کو (1) ایک ڈرائیور کی ضرورت ہوتی ہے، جو اس کو کنٹرول کرے۔ (2)ایک پٹری کی ضرورت ہوتی ہے، جس پر وہ بھٹکے بغیر سفر کرسکے۔ (3) اور ایک طے شدہ منزل کی ضرورت ہوتی ہے، جس کی طرف وہ دوڑے۔ بس ان ہی تین چیزوں کا نام زندگی ہے۔ جس طرح ایک مشین کو اپنا کام صحیح طورپر انجام دینے کے لیے یہ تینوں چیزیں ضروری ہیں۔ اسی طرح انسان بھی اپنے مقصد وجود کو پورا نہیں کرسکتا، جب تک یہ چیزیں اسے حاصل نہ ہوں۔
سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ وہ کون سی شخصیت ہو، جو انسانوں کی اس وسیع آبادی کا انتظام کرے، اور جس کی سب لوگ اختیارانہ طور پر اطاعت کریں، جس کے آگے انسان اپنے آپ کو سرینڈر کرے۔ یہی شخصیت وہ کنٹرولر (controller) ہوگی، جو ہمارے انجن کو قابو میں رکھ کر چلائے گی۔
دوسری چیز یہ ہے کہ وہ کون سا نظریہ ہو، جس کو سب لوگ تسلیم کریں، جس کے مطابق ایک شخص اور دوسرے شخص اور ایک گروہ اور دوسرے گروہ کے درمیان فیصلہ کیا جائے، جو انسانی سرگرمیوں کے صحیح حدود (limitations) متعین کرے، اور زندگی کے مختلف مراحل میں ایک رویّے کوچھوڑ نے اور دوسرے رویّے کو اختیار کرنے کی ہدایات دے، یہ گویا وہ پٹری ہوگی جس پر انسانی زندگی کی گاڑی سفر کرے گی۔
تیسری چیز یہ کہ ہم جو اس دنیا میں پیدا ہوئے ہیں، تو ہمارے پیدا ہونے کا مقصد کیا ہے۔ وہ کون سی منزل ہے، جدھر ہم کو جانا چاہیے۔ کون ساکام کرنے میں ہمارے لیے بہتری ہے، اور کون سے کام ہیں جن کو کرنے کی صورت میں ہمیں نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اسی سے متعلق یہ سوال بھی ہے کہ مرنے کے بعد کیاہوگا۔ اگر یہ زندگی مرکر ختم ہوجاتی ہے تب تو ہمیں اس کے بارے میں کچھ سوچنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن موت کے اُس پار بھی اگر کوئی دنیا ہے، اور اس کے بعد بھی اگر زندگی کا سلسلہ باقی رہتا ہے، تو ہم کو آج ہی سے اس کے لیے بھی سوچنا ہوگا۔ کیوں کہ پھر یہ ہماری موجودہ زندگی، موت کے بعد آنے والی زندگی سے الگ نہیں ہوسکتی۔ ہماری آج کی کارگزاریوں کا اثر لازماً کل کے حالات پر پڑے گا۔
اس سوال کے صحیح جواب کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے وہ منزل پالی ہے، جہاں پہنچ کر ہم کو اپنی زندگی کا مقصد حاصل ہوجائے گا۔ اگر ہم نے صحیح مقصد طے کیے بغیر اپنا سفر شروع کردیا، تو اس کی مثال ایسی ہوگی کہ ایک شخص کلکتہ جانے کے ارادے سے ریلوے اسٹیشن میں داخل ہو، اور سامنے پلیٹ فارم پر ایک گاڑی کھڑی دیکھ کر اس میں بیٹھ جائے، اور یہ معلوم نہ کرے کہ یہ گاڑی کہاں جارہی ہے۔ وہ اسی طرح انجان حالت میں سفر کرتا رہے، یہاں تک کہ ٹرین جب اپنے آخری اسٹیشن پر پہنچے تو معلوم ہو کہ یہ امرتسر ہے، جو کلکتہ سے بالکل مخالف سمت میں ساڑھے گیارہ سو میل دور واقع ہے۔
ہم جس آئڈیالوجی کی دعوت لے کر اٹھے ہیں، وہ اسلام ہے۔ دنیا کے مختلف آئڈیالوجی کے مطالعے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس آسمان کے نیچے یہی ایک آئڈیالوجی ہے، جو زندگی کی گاڑی کو صحیح طورپر چلا سکتا ہے۔ اور اس کو وہاں پہنچا سکتا ہے جہاں یقیناً اسے پہنچنا ہے۔
اب میں بتاؤں گا کہ مندرجہ بالا تینوں بنیادی سوالات کا جواب اسلام کس طرح دیتا ہے، اور دوسرے جوابات جو اس سلسلے میں دیے گئے ہیں، ان میں کیا خرابیاں ہیں۔
پہلے سوال کا صحیح جواب پانے کے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ اس کائنات کا کوئی خدا ہے۔ اگر کوئی ہے ،جس نے کائنات کو بنایا ہے، اور جو اس پورے کارخانے کو چلا رہاہے، تو لازماً اسی کو ہمارا بھی خدا ہونا چاہیے۔یہ بات عقل اورمنطق کے بالکل خلاف ہے کہ پوری کائنات کا چلانے والا کوئی اور ہو ،اور انسان پر کسی دوسرے کا حکم چلے۔
یہ زمین جس پر ہم رہتے ہیں، آپ کو معلوم ہے کہ کسی ہاتھی کی پیٹھ پر نہیں رکھی ہوئی ہے، بلکہ وہ فضا میں معلق (suspended)ہے۔ زمین کی گولائی خط استوا (Latitude)پر
زمین سے چاند کا فاصلہ 2 لاکھ 40 ہزار میل ہے، اور سورج ہم سے 9 کرور
امریکا کے بعض بحری افسروں نے جو سمندر کی پیمائش کررہے تھے، ایک تجربہ کیا۔ انھوں نے موٹے شیشے کی کئی ہوا بند کھوکھلی گیندوں (vacuum balls)کو سمندر میں ڈالا۔ نکالنے پر معلوم ہوا کہ وہ پانی سے بھر گئی ہیں۔ خوردبین(microscope) سے دیکھاگیا تو شیشے کی سطح کے ٹوٹنے یا سوراخ ہونے کا کوئی نشان نہیں ملا۔ اس سے ثابت ہوا کہ پانی کے نیچے
زمین کا اندرونی حصہ جو
پھر یہ کیا محض اتفاق ہے کہ انسانوں کو آباد کرنے کے لیے زمین کا اوپری حصہ ٹھنڈا اور اندرونی حصہ نہایت گرم ہے، اور آسمان میں کبھی بالکل اچانک طورپر ایک نہایت چمک دار ستارہ دکھائی دیتا ہے، جس کو نیا تارہ (Nava) کا نام دیاگیا ہے۔ موجودہ تحقیقات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ نئے ستارے نہیں ہوتے، بلکہ پرانے دھیمے ستارے یک بیک بھڑک اٹھتے ہیں، اور بڑھتے بڑھتے
ماہر ارضیات لونکوئسٹ (Mr. Lencois)کا خیال ہے کہ ہر ستارہ 40 کرور سال میں ایک بار بھڑک اٹھتا ہے۔ سورج بھی ایک ستارہ ہے۔ جہاں تک ارضی تحقیقات کا تعلق ہے، کم ازکم ایک ارب سال پہلے تک سورج کے بھڑکنے کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ پھر کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جو عمل دوسرے ستاروں کے ساتھ ہورہا ہے، وہ سورج کے ساتھ نہیں ہوتا، اور اس میں کسی بالا تر قوّت کا کوئی دخل نہیں ہے۔
زمین اور سورج دونوں اپنی اپنی کشش سے ایک دوسرے کو کھینچ رہے ہیں، اور وہ ایک خاص مقام پر آکر رک گئے ہیں۔ اگر کسی دن ایسا ہو کہ زمین کی قوت کشش (gravitational force) ختم ہوجائے تو وہ پوری انسانی آبادی کو لیے ہوئے اپنے تمام بڑے بڑے شہروں اور کارخانوں کے ساتھ صرف
رات کے وقت ٹوٹنے والے تارے آپ نے دیکھے ہوں گے۔ یہ دراصل سخت مادے کے ٹکڑے ہیں جو رائفل کی گولی سے سیکڑوں گنا زیادہ تیز رفتار ہونے کے ساتھ بے شمار تعدا دمیں ہر وقت فضا کے اندر دوڑتے رہتے ہیں، اور زمین کے گرد کرۂ ہوا (atmosphere)سے مسلسل ٹکراتے ہیں۔ ہوا کا کرہ ایک غلاف کی شکل میں تمام دنیا کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس کی بلندی تقریباً 250 میل ہے۔ اس ہواکی وجہ سے شہابِ ثاقب (Meteor)ہماری زمین تک پہنچنے نہیں پاتے، بلکہ وہ کرہ ٔہوا کی بالائی سطح تک پہنچتے ہی ہوا کے ساتھ ٹکراتے ہیں، اور اسی رگڑ کی وجہ سے اتنی حرارت پیدا ہوتی ہے کہ شہابِ ِثاقب جل اٹھتے ہیں۔ یہی جلنے کی روشنی ہے ،جو ہم کو ٹوٹتے ہوئے تارے کی شکل میں نظر آتی ہے۔ اس ٹکراؤ سے شہابِ ثاقب پاش پاش ہو کر باریک ذرات کی شکل میں ہوا میں منتشر ہوجاتے ہیں۔ یہ ہوا کا غلاف دنیا کے گرد نہ ہوتا تو شہاب ثاقب بہت بڑی تعداد میں نہایت شدت کے ساتھ زمین پر گرتے۔ ہم اُن کے خلاف کوئی بچاؤ نہیں کرسکتے تھے، اور ساری دنیا کا وہی انجام ہوتا، جو انجام ہیروشیما اور ناگاساکی کا ایٹم بم کے حملے میں ہوچکا ہے۔ چاند کی سطح پر جو بہت سے غار ہیں، خیال کیا جاتا ہے کہ یہ اسی قسم کے بڑے بڑے شہاب ثاقب (Meteors) کی بم باری سے پیدا ہوئے ہیں ۔پتھروںکی یہ خطرناک بارش جو ہر وقت فضا میں ہورہی ہے، اس سے ہمارا بچے رہنا کیا محض ایک اتفاق ہے، اور اس میں کسی انتظام کرنے والے کا انتظام شامل نہیں ۔
کائنات کے اندر اس طرح کی بے شمار حقیقتیں اس بات کی گواہ ہیں کہ کوئی عظیم قوت ہے، جو اس کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اور نہایت باقاعدگی کے ساتھ اس کا انتظام کررہی ہے۔ کوئی شخص کیا محض اس لیے خدا کا انکار کرسکتا ہے کہ وہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا ہوا نہیںہے۔جہاں جاکر وہ اسے دیکھ آئے۔ ایتھر(Ether) ایک ایسی چیز ہے، جو ہر وقت اور ہر جگہ موجود ہے، جس پر ٹیلی ویژن کی تصویریں اور لاسلکی (wireless)کے پیغامات سفر کرتے ہیں۔ مگر کیا ایتھر کو کسی نے دیکھا ہے۔ وہ ایک ایسا لطیف عنصر ہے، جس کا کوئی وزن نہیں۔ وہ نہ جگہ گھیرتا ہے، اور نہ کسی خورد بین سے دیکھا جاسکتا ہے ،مگر سب لوگ اس کا وجود تسلیم کرتے ہیں ۔
جو شخص یہ کہتاہے کہ میں خدا کو اس وقت تک نہیں مانوں گا، جب تک اپنی آنکھوں سے دیکھ نہ لوں، وہ گویا اس بات کا دعویٰ کرتا ہے کہ کائنات کی وسعتوں کو اس نے پار کرلیا ہے۔ جس کائنات کے بارے میں اب تک ہم یہ نہ جان سکے کہ وہ کتنی لمبی چوڑی ہے، ہم اس کے پیدا کرنے والے کا کس طرح احاطہ کرسکتے ہیں۔ سورج خدا کی ایک بہت چھوٹی سی مخلوق ہے، مگر کروروں میل دور ہو کر اس کی روشنی کا یہ حال ہے کہ ہم اس پر نظر ٹھہرائیں تو ہماری آنکھ کی روشنی زائل ہوجائے۔ پھر وہ خدا جو ساری قوتوں کا خزانہ ہے۔ جو نہ صرف سورج بلکہ اس سے بڑے بڑے بے شمار ستاروں کو بھی روشنی اور حرارت پہنچا رہا ہے۔ کیا وہ ایسا ہوگا کہ ہم اپنی آنکھوں سے اسے دیکھ لیں۔
خدا کو ماننے کے لیے خدا کو دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔اس کو ہر جگہ اس کی حیرت انگیز کاریگری میں ہم دیکھ سکتے ہیں۔ اس پھیلی ہوئی کائنات کااس قدر منظم ہو کر چلنا، اور اس کے مختلف عناصر میں باہم اس درجہ موافقت (harmony) ہونا، ایک خدا کی موجودگی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
ہندستان میں ریلوے کا ایک چھوٹا سا نظام ہے۔ 1955میں اس کے راستوں کی لمبائی مجموعی طورپر
یورپ میں سترھویں صدی عیسوی میں سائنس اور کلیسا (church)کا جو تصادم ہوا، اور جس میں کلیسا نے بالکل غلط طور پر مذہب کا نام لے کر نئی سائنسی تحقیقات کو دبانے کے لیے نہایت وحشیانہ مظالم کیے۔ اس کے نتیجے میں سائنس دانوں کو مابعد الطبیعی نقطۂ نظر سے ایک ضد سی پیدا ہوگئی، اور انھوں نے کوشش کی کہ کائنات کی تعبیر اس طرح کی جائے جس سے ثابت ہو کہ کلیسا کی بنیاد جس خدا کے تصور پر قائم ہے، اس کا کہیں وجود ہی نہیں ہے۔ اس کائنات کا کوئی چلانے والا نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے آپ ایک بے جان مشین کی طرح چلی جارہی ہے۔ اسی زمانے میںلارڈ کیل وِن (Lord Kelvin) نے کہا تھا کہ جب تک میں کسی چیز کا مشینی ماڈل نہیں بنا لیتا، تب تک میں اسے سمجھ نہیں سکتا۔ دمدار ستارے جو جاہل قوموں کے نزدیک سلطنتوں کے زوال اور بادشاہوں کے انتقال کانشان سمجھے جاتے تھے، جب ان کی حرکت، تجاذب (gravitation) کے عالم گیر قانون کے مطابق ثابت کی گئی، تو نیوٹن (Isaac Newton)نے کہا کہ کیا اچھا ہو، اگر دوسرے واقعاتِ قدرت بھی اسی قسم کے استدلال سے میکانکی اصولوں (mechanical principles) کے ذریعے اخذ ہوسکیں ۔
مگر یہ ایک جذباتی ردِّعمل تھا، اور بہت جلد معلوم ہوگیا کہ کائنات کی صحیح توجیہہ (explanation) بن نہیں سکتی ،اگر اس کو صرف ایک بے دماغ مشین مان لیا جائے۔ چنانچہ اب بڑے بڑے سائنس داں کائنات کے اندر ایک کار فرما قوت کو ماننے پر مجبور ہورہے ہیں۔مثال کے طورپر انگلستان کے مشہور سائنٹسٹ سرجیمز جینز (Sir James Jeans) نے اپنے ایک مضمون میں زمین اور آسمان کے حیرت انگیز نظام پر گفتگو کرتے ہوئے آخر میں لکھا ہے:
’’کائنات ایک بہت بڑی مشین کے بجائے ایک بہت بڑے ذہن (mind)سے زیادہ مشابہ معلوم ہوتی ہے۔ مادے کے اس نظام میں دماغ اتفاقی طورپر محض ایک اجنبی کی حیثیت سے داخل نہیں ہوگیا ہے، بلکہ یہی غالباً مادے کے اِس نظام کو بنانے والا، اور اس کے اوپر فرماں روائی کرنے والا ہے۔ پھر یہ دماغ یقیناً ایک عام انسان کے دماغ کی طرح نہیں ہے، بلکہ وہ ایسا دماغ ہے جس نے مادے کے جوہر (atoms) سے انسانی دماغ کی تخلیق کی ہے، اور یہ سب کچھ ایک اسکیم کی شکل میں اس کے ذہن میں پہلے سے موجود تھا‘‘
The Mysterious Universe, by Sir James Jeans, p.
یہی ’’ذہن‘‘ دراصل وہ عظیم اوربرتر خدا ہے، جو تمام انسانوں کا مالک اور ان کا حاکم ہے۔ ساری کائنات اسی خدا کی فرماں برداری میں لگی ہوئی ہے۔ پھر انسان کا راستہ کیوں کر اس سے الگ ہوسکتا ہے۔ ایک ریل گاڑی جو کسی تیز رفتار انجن کے ساتھ بندھی ہوئی دوڑی چلی جارہی ہو، اس کا کوئی ایک ڈبہ اگراپنے آپ کو اس سے الگ کرکے کوئی دوسرا راستہ بنانا چاہے، تو اس کا انجام تباہی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ اس لیے ہمارے نزدیک صحیح ترین راستہ صرف یہ ہے کہ انسان بھی اسی ہستی کا مطیع ہوجائے، جس کی اطاعت اس کے گرد و پیش کا سارا عالم کررہا ہے۔ آسمان کے ستارے اگر جذب و کشش کے نظام سے اپنے آپ کو الگ کرلیں، تو آپس میں وہ ٹکرا کر تباہ ہوجائیں، اور ایک دن بھی ان کی زندگی باقی نہ رہے۔
یہی حال آج انسان کا ہے۔ انسان نے اگرخدا کا حکم ماننے سے انکار کیا، تو گویا اس نےپورے نظام کائنات سے الگ راستہ اختیار کیا۔اس نے وہ راستہ چھوڑ دیا، جس پر مخلوقات کا پورا قافلہ چلا جارہا ہے، یعنی فطرت کا راستہ۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانی زندگی میں سخت ابتری پیدا ہوگئی ہے۔ امن اور خوش حالی اور سکون کے الفاظ ڈکشنریوں میں لکھے ہوئے تو ملتے ہیں، اور لیڈروں کی زبان سے آئے دن سنے بھی جاتے ہیں، مگر واقعہ یہ ہے کہ دنیا اب ان نعمتوں سے محروم ہوچکی ہے۔ اور نہایت تیزی سے وہ ایک خوفناک انجام کی طرف دوڑی چلی جارہی ہے۔
اس کا علاج صرف یہ ہے کہ آدمی اپنے خالق کی طرف اپنے اختیار سے پلٹ آئے۔ وہ اس کو اپنا رب اور خالق تسلیم کرے، اور اس رسی کو مضبوطی سے تھام لے، جس کے علاوہ ایک مرکز پر جمع ہونے کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔
انسانی جسم کا تجزیہ کیاگیاتو معلوم ہوا کہ
یہ عناصر جس مقدار میں جسم کے اندر موجود ہیں، ان کا تخمینہ کرکے قیمت کا اندازہ کیاگیا تو
پھر یہ دماغ جس سے ہم سوچتے ہیں، اور جو 3 لاکھ سے زیادہ اعصابی تاروں کے ذریعہ پورے بدن کو کنٹرول کرتا ہے، کس قدر عجیب ہے۔ کیا یہ حیرت انگیز انسان بس اسی لیے ہے کہ چند سال دنیا میں زندگی گزارے ،اور اس کے بعد مرکر مٹی میںمل جائے۔ یہ انسان جس کی زندگی کے لیے ہوا ا ور پانی اور سورج کا انتظام کیاگیا ہے، جس کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے زمین میں بے شمار قسم کی چیزیں پیدا کی گئی ہیں، کیا اس کا انجام بس یہی ہے کہ وہ بچہ سے جوان ہو، پھر بوڑھا ہو، اور پھر ایک دن مرکر ختم ہوجائے۔
ایک اور پہلو سے دیکھیے، ایک شخص بہت نیک اور معقول ہے، مگر اس کی ساری زندگی تکلیف میں گزر جاتی ہے۔ وہ خود کسی کا مال نہیں چھینتا، مگر دوسرے اس کے گھر میں چوری کرتے ہیں۔ وہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا، مگر دوسروں سے اسے تکلیف اٹھانی پڑتی ہے۔ وہ جھوٹ نہیں بولتا، مگر دوسرے اس پر جھوٹا الزام لگاتے ہیں۔ وہ جب عدالت میں داد رسی کے لیے جاتا ہے ،تو وہاں بھی دوسرے لوگ اپنے پیسے اور سفارش کے زور سے مقدمہ جیت جاتے ہیں، اور الٹے اسی کو سزا ہوجاتی ہے۔ کیا اس ظلم کا کوئی انصاف نہیں ہوگا۔
کچھ لوگ اپنے ذہن سے ایک نظریہ گھڑتے ہیں، اور اس کو نافذ کرنے کے لیے لاکھوں بندگانِ خدا کو قتل کرکے ان کی اِملاک اور جائداد چھین لیتے ہیں، اور پورے ملک کوجیل خانہ کی زندگی گزارنے پر مجبور کرتے ہیں۔ کیا اِس کی کوئی باز پرس نہیں ہے، کچھ لوگ ملک کے نظم ونسق پر قابض ہو کر قدرت کے ذرائع کی اس انداز میں تحقیق کرتے ہیں کہ ان سے کیسے کیسے خطرناک ہتھیار بنائے جاسکتے ہیں، اور پھر بموں کی بارش سے پورے پورے شہروں اور ملکوں کو آگ میں بھون ڈالتے ہیں۔ کیا اس کی کوئی پوچھ ان سے نہیں ہوگی۔
کسی ملک میں چند سرمایہ داروں کے پاس اناج اور پھل کی کافی پیداوار ہوتی ہے، مگر وہ بھاؤ گرنے کے ڈر سے لاکھوں من پیداوار کو جلا ڈالتے ہیں،یا سمندر میںپھینک دیتے ہیں۔ حالانکہ خود ان کے ملک میںاور ملک کے باہر بہت سے لوگ انھیں چیزوں کے لیے ترستے ہیں۔ کیا ایسی کوئی عدالت نہیں ہے، جہاں انھیں اپنے اس فعل کا جواب دیناہو۔
اس وقت دنیا میں جو کچھ ہورہا ہے۔ اس کی ہم کوئی توجیہہ نہیں کرسکتے ،اگر ہم ایک ایسے دن کو تسلیم نہ کریں، جب کہ ایک ایک شخص اور ایک ایک قوم کی کارگزاریوں کی جانچ ہوگی، اور اس کے کارنامے کے مطابق، اس کو اچھا یا برا بدلہ دیا جائے گا۔ اس طرح کے ایک دن کو مانے بغیر یہ دنیا محض بچوں کا کھیل نظر آتی ہے۔
اس طرح کا ایک دن ماننا اس لیے بھی ضروری ہے کہ دنیا میں آدمی کو صحیح رویہ پر قائم رکھنے کے لیے اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے۔ اگر زندگی بس یہی دنیا کی زندگی ہے، اور مرنے کے بعد کوئی حساب نہیں ہونے والا ہے، تو پھر کیا ضرورت ہے کہ آدمی سچائی اور دیانت داری اختیار کرے، کیوں نہ اپنے فائدے کے لیے وہ جھوٹ بولے، کیوں نہ رشوت لے اور غبن کرے، کیوں نہ ایک قوم دوسری قوم پر ڈاکہ ڈالے۔ اس نظریے کو نہ ماننے کے بعد پھر کوئی ایسا عامل (factor) باقی نہیں رہتا، جو آدمی کو صحیح رویہ پر برقرار رکھنے کے لیے مجبور کرسکتا ہو، پھر یہ انسانی آبادی ایک جنگل میںتبدیل ہوجاتی ہے، جہاں ایک جانور دوسرے جانور کو کھا جانا چاہتا ہے، اور کوئی فرد کسی اخلاقی اور انسانی ضابطے کا پابند نہیں ہے۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
انسان جب پیدا ہوتا ہے، تو اس کی سب سے پہلی دریافت، شعوری طور پر تو نہیں، مگر غیرشعوری طور پر یہ ہوتی ہے کہ کیسا عجیب ہے ،وہ خالق جس نے پوری دنیا کو میرے لیے کسٹم میڈ دنیا بنا دیا۔ رحم مادر، اسی طرح خارجی دنیا کا پورا نظام، عین وہی ہے، جو انسان کے لیے مطلوب تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان دنیا کے لیے بنا ہے، اور دنیا انسان کے لیے بنائی گئی ہے۔
واپس اوپر جائیں
قدیم زمانے سے یہ طریقہ چلا آرہا تھا کہ بیٹے کے ذریعے تسلسل کو قائم رکھنا۔ مثلا ً سردار کا بیٹا سردار، بادشاہ کا بیٹا بادشاہ، خلیفہ کا بیٹا خلیفہ، اسی طرح عہدیدار کا بیٹا عہدیدار، وغیرہ۔ یہ طریقہ برابر قائم رہا۔ اس طرح نظام کا عملی ڈھانچہ تو قائم رہا، لیکن اس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ غیر اہل (incompetent) افراد عہدوں پر قابض ہونے لگے۔ مغرب نے اس کے بدل کے طور پر ادارے (institution) کا طریقہ رائج کیا، اور ادارے میں یہ اصول رکھا کہ الیکشن کے ذریعے عہدیدار منتخب کیے جاتے رہیں۔ اس طریقے میں معیار کو باقی رکھنے کی تدبیر وہ اختیار کی گئی، جس کو کوالیٹی ایجوکیشن (quality education) کہا جاتا ہے۔ یعنی ایجوکیشن کے ذریعے بہتر افراد کا عہدے تک پہنچنا۔
غیر ترقی یافتہ ملکوں میں بھی اس طریقے کو اپنایا گیا ہے، لیکن وہ کامیاب نہ ہوسکا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ غیر ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ بھی بظاہر کوالیٹی ایجوکیشن کا نام لیتے ہیں، لیکن اسی کے ساتھ وہ رعایت اور ریزرویشن کا طریقہ بھی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ چنانچہ رعایت اور ریزرویشن کے طریقے نے ان ملکوں میں کوالیٹی ایجوکیشن کا عملاً خاتمہ کردیا ہے۔
کوالیٹی ایجوکیشن کی کامیابی کی واحد شرط یہ ہے کہ پوری اصول پسندی کے تحت اسٹرکٹ کامپٹیشن (strict competition) کا اصول اختیار کیا جائے۔ اسٹرکٹ کامپٹیشن کا مطلب ہے— مقابلے کا سامنا کرو، یا ختم ہوجاؤ (compete or perish)۔ اس اصول کو سختی سے اختیار کیے بغیر کوالیٹی ایجوکیشن کا کوئی وجود نہیں۔
اسٹرکٹ کا مپٹیشن کو سختی سے رائج کیا جائے ،تو یہ ہوگا کہ صرف اہل لوگ منتخب ہوکر اوپر آئیں گے، اور جو نااہل افراد ہیں، وہ خود سسٹم کے تحت اپنے آپ چھٹ کر الگ ہوجائیں گے۔ مگر الگ ہونا، سادہ طور پر کنارے لگنا نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ہے ایسے افراد کے لیے دوسرے چائس کو اویل کرنے کا موقع دینا۔
واپس اوپر جائیں
ایک قاریٔ الرسالہ نے یہ سوال کیا ہے کہ فکر کی تشکیل میں سب سے زیادہ کن عناصر پر توجہ دینی چاہیے۔ (حافظ اے ایچ دانیال، پٹنہ، بہار)
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تاریخ ایک مسلسل سفر کا نام ہے۔ بہت زیادہ آبجیکٹیو مطالعہ کے ذریعے سب سے پہلے یہ جاننا ہے کہ اس سفر میں ہم کہاں ہیں۔ یہ سب سے پہلی شرط ہے ۔مثلاً دور جدید دراصل نئے مواقع وجود میں آنے کا زمانہ ہے۔ جس چیز کو جدید تہذیب کہتے ہیں، وہ دراصل جدید مواقع (new opportunities)کا دوسرا نام ہے۔ لیکن عین اسی زمانے میں یہ ہوا کہ مغل سلطنت اور عثمانی سلطنت کے سقوط کا واقعہ پیش آگیا۔
یہ واقعہ کسی کے ظلم یا سازش کی بنا پر نہیں ہوا، بلکہ وہ مسابقت کی بنا پر ہوا۔ یہ دنیا مسابقت (competition) کی دنیا ہے۔ یہاں مسلسل طور پر افراد اور قوموں کے درمیان مسابقت جاری رہتی ہے۔ جو فرد یا قوم مسابقت میں اسٹینڈ کرتے ہیں، ان کو زندگی ملتی ہے، اور جو اسٹینڈ نہیں کرتے، وہ زندگی کےمیدان میں پیچھے چلے جاتے ہیں۔ موجودہ زمانے کے مسلم لیڈروں نے اس راز کو نہیں سمجھا۔ جو واقعہ بر بنائے مسابقت ہوا تھا، اس کو انھوں نے بر بنائے ظلم سمجھ لیا، اور مفروضہ ظالموں کے خلاف لڑائی لڑنے میں مشغول ہوگئے۔ یہ بلاشبہ اندازے (assessment) کی غلطی تھی۔ اب تمام مسلم رہنماؤں پر یا ان کے ماننے والوں (followers)پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنی غلطی کا اعلان کریں، تاکہ وہ اپنے عمل کی زیادہ صحیح منصوبہ بندی کرسکیں۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے پچھڑے پن کا جو واقعہ پیش آیا ، اس کا تقاضا تھا کہ تمام مسلمان، عرب و عجم، اپنے عمل کی ری پلاننگ کریں۔ اس کے برعکس، انھوں نے یہ کیا کہ جدید قوموں کو دشمن قرار دےکر ان سے لڑنا شروع کردیا۔ یہ اندازے کی سنگین غلطی تھی۔ موجودہ زمانے کے مسلمان اپنے اس غلط اندازے کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں
امریکا کی کامیابی کا رازیہ ہے کہ وہ آج کی دنیا میں ایک دینے والی قوم (giver nation) بنی ہوئی ہے۔ امریکا دنیا سے جتنا لے رہا ہے، اس سے زیادہ وہ دنیا کو دینے والا بنا ہوا ہے۔ اس راز کو میں نے پہلی بار 1980 میں اپنے ایک ذاتی تجربے سے جانا۔ ہمارے ساتھیوں نے 1980 میں قرآن مشن کے لیے نظام الدین ویسٹ میں ایک بلڈنگ بنائی۔ یہ بلڈنگ جب بن کر تیار ہوگئی، تو معلوم ہوا کہ اس کے بیسمنٹ میں نیچے سے پانی آگیا ہے۔ میں اس کو دیکھنے گیا، تو بیسمنٹ پورا کا پورا پانی سے بھرا ہوا تھا۔ اس وقت ایک مقامی انجینئر کو بلایا گیا، انھوں نے دیکھنے کے بعد کہا کہ یہ بلڈنگ پوری کی پوری فلوٹنگ اسٹیٹ (floating state) میں آگئی ہے۔ موجودہ حالت میں وہ ناقابل استعمال ہے۔ اب آپ کے لیے ایک ہی صورت ہے کہ آپ بلڈنگ کو توڑ دیں، اوردوبارہ اس کو تعمیر کرائیں۔
یہ ایک بے حد مشکل مسئلہ تھا۔ اس وقت ہمارے ایک جاننے والے تھے، جن کا نام رحمان نیر تھا۔ وہ اگلے دن اپنے ایک دوست کو لے کر آئے، یہ صاحب امریکا سے انجینئرنگ کی پڑھائی کرکے آئے تھے۔ انھوں نے پوری بلڈنگ کا معائنہ کیا، اور اس کے بعد کہا کہ آپ صرف یہ کیجیے کہ مجھ کو پچاس بوری سمنٹ، اور ضروری مقدار میں ریت منگواکر دے دیجیے۔ ان کے مشورے کے مطابق ، ایسا ہی کیا گیا۔ انھوں نے مزدور بلا کر فوراً کام شروع کرادیا، اور جلد ہی ایسا ہوا کہ پانی کا مسئلہ ختم ہوگیا، اور بلڈنگ آج تک اپنی جگہ پر کھڑی ہوئی ہے، اور سارا کام معمول کے مطابق انجام پارہا ہے۔ مذکورہ انجینئر نے بتایا کہ پہلے زمانے میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ سمنٹ کا موٹا فرش بنا دیا جائے، تو پانی کے اوپر روک قائم ہوجائے گی۔ لیکن بعد کو معلوم ہوا کہ سمنٹ کا فرش خواہ کتنا ہی موٹا بنایا جائے، وہ سوراخ دار (porous) ہوتا ہے۔ اس لیے فرش بننے کے بعد پانی رِ سنا شروع ہوجاتا ہے، اور پانی کا مسئلہ ختم نہیں ہوتا۔ اس کے بعد امریکا میں ایک کیمیکل ایجاد کیا گیا۔ اس کیمیکل کو سمنٹ میں ملادیا جاتا ہے، تو ایسا فرش بنانا ممکن ہوجاتا ہے، جو پانی کو کامیابی کے ساتھ روکنے والا ہو۔
واپس اوپر جائیں
کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ مسلسل طور پر بولتے ہیں۔ان کے الفاظ کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے پاس الفاظ کا خزانہ ہے، لیکن یہ الفاظ معانی سے خالی ہوتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں نہ کوئی تجزیہ ہوتا ہے، نہ کوئی وزڈم (wisdom) ، نہ کوئی گہری معنویت۔آپ ان کی باتوں کو گھنٹوں سنتے رہیے، لیکن ان کی باتوں میں آپ کو کوئی حکمت یا کوئی دانشمندی کی بات نہیں ملے گی۔ حتی کہ آپ اس سے بھی بے خبر رہیں گے کہ انھوں نے کیا کہا۔ ان کی باتوں میں آپ کو کوئی ٹیک اوے (takeaway) نہیں ملے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں، جن کے پاس حافظہ (memory)ہوتا ہے، مگر ان کے پاس دانش مندی (wisdom) نہیں ہوتی۔ ان کے پاس گہرا مطالعہ نہیں ہوتا۔اقبال نے ایک شعر کہا تھا، وہ شعر یہ ہے
قلندر جُز دو حرفِ لااِلہ کچھ بھی نہیں رکھتا فقیہِ شہر قاروں ہے لُغَت ہائے حجازی کا
اقبال نے یہ شعر خواہ جس معنی میں کہا ہو، وہ ایک اور اعتبار سے بالکل درست ہے،ا ور وہ ہے آج کل کے لکھنے اور بولنے والے لوگوں کا طبقہ۔ آج کل جو لوگ اسٹیج پر بولتے ہیں، یا مجلات میں لکھتے ہیں، ان کی باتوں کو سنیے یا پڑھیے۔ ان سب کا خلاصہ تقریباً ایک ہے۔ الفاظ کی بھرمار، لیکن معانی کا وجود نہیں۔
اس مسئلے پر غور کرنے کے بعد میں نے سمجھا ہے کہ خواہ تقریر کا معاملہ ہو، یا تحریر کا، وہ بامعنی اس وقت بنتی ہے، جب کہ صاحبِ تحریر یا صاحبِ تقریر میں تخلیقی صلاحیت (creativity) موجود ہو۔ صرف تعلیمی سند یا مطالعہ اس مقصد کے لیے کافی نہیں۔ بڑے سے بڑا آدمی خواہ وہ سند یافتہ ہو، یا صاحبِ مطالعہ ، کبھی وہ بامعنی تقریر یا تحریر کا مالک نہیں بن سکتا۔ ضروری ہے کہ اس کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پائی جائے۔ تخلیقی فکر کے بغیر آدمی باتوں کو دہرا سکتا ہے، لیکن وہ کسی بامعنی تحریر یا تقریر کو وجود میں نہیں لاسکتا۔ بامعنی تقریر یا تحریر ہمیشہ تخلیقی فکر کا نتیجہ ہوتی ہے، نہ کہ تکرار ِالفاظ کا نتیجہ۔ تخلیقی فکرکا مالک کون ہے، یہ وہ انسان ہے، جو آخری حد تک کھلا ذہن (open mind) رکھتا ہو، جو اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر خالص موضوعی (objective) انداز میں رائے قائم کرسکتا ہو۔
فارسی کا ایک مثل ہے یک من علم را، دہ من عقل می باید۔ یعنی ایک من علم کے لیے دس من عقل چاہیے ۔یہ بات اس وقت پیدا ہوتی ہے، جب کہ آدمی بولنے سے زیادہ سوچے، وہ بولنے سے زیادہ تجزیہ (analysis)کرے۔وہ ظاہری اہمیت کی چیزوں سے اوپر اٹھ کر معنوی اہمیت کی چیزوں میں گم ہوجائے ۔اس کے اندر مثبت سوچ (positive thinking) پائی جاتی ہو۔ وہ تعصب سےدور ہو۔ اس کا ذہن نفرت اور انتقام کے جذبات سے خالی ہو۔ وہ غیر متاثر انداز میں واقعات کا تجزیہ کرے۔وہ اپنے قریبی حالات سے اوپر اٹھ کر سوچے۔
تخلیقی فکر فطرت کا عطیہ ہے۔ تخلیقی فکر ایک خداداد صلاحیت ہے۔ تخلیقی انسان کے اندر وہ صفت ہو تی ہے،جس کو حدیث میں دعا کی شکل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےاللَّہُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا، وَارْزُقْنَا اتِّبَاعَہُ، وَأَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا،وَارْزُقْنَااجْتِنَابَہِ، وَلَا تَجْعَلْہُ مُلْتَبِسًا عَلَیْنَا فَنَضِلَّ (تفسیر ابن کثیر، 1/427)۔ یعنی اے اللہ، ہمیں حق کو حق کی صورت میں دکھا، اور اس کے اتباع کی توفیق دے، اور باطل کو باطل کی صورت میں دکھا، اور اس سے بچنے کی توفیق دے، اور اس کو ہمارے اوپر غیر واضح نہ بنا کہ ہم گمراہ ہو جائیں۔ اسی طرح یہ دعا اللَّہُمَّ أَرِنَا الْأَشْیَاءَ کَمَا ہِیَ (تفسیر الرازی، جلد
یہ ایک حقیقت ہے کہ ذہنی ارتقا کا اعلی درجہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر تخلیقی فکر پیدا ہوجائے۔ایسا آدمی ہر لمحہ اپنے لیے انٹلکچول فوڈ حاصل کرتا رہتا ہے۔ اس کی ذہنی زندگی کبھی اور کسی حال میں ختم نہیں ہوتی۔جو لوگ صرف تکرار الفاظ کو جانتے ہوں، وہ الفاظ کا جنگل اگاسکتے ہیں، لیکن معانی کا باغ وجود میں نہیںلاسکتے۔الفاظ کا جنگل اگانے کے لیے حافظہ (memory) کافی ہے۔ اگر کسی کا حافظہ اچھا ہو، تو وہ بہ آسانی الفاظ کا جنگل اگاسکتا ہے۔ لیکن معانی کا باغ اگانا ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ معانی کا باغ صرف وہ لوگ اگاسکتے ہیں، جو تخلیقی فکر کے حامل ہوں۔
واپس اوپر جائیں
لوگ مشہور انسانوں کی سوانح عمری لکھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان ایک کتاب ہے۔ انسانوں کا مجموعہ ایک عالمی کتب خانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہر انسان کی زندگی ایک عظیم کتاب ہے۔ ہر انسان کی زندگی واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں ایسے تجربات ہوتے ہیں، جو دوسرے انسان کی زندگی میں نہیں ہوتے ہیں۔ گویا کہ ہر انسان اپنے ساتھ ایک پوری لائبریری لیے ہوئے ہے۔ ہر انسان اپنے ساتھ ایک مکمل کتب خانہ لیے ہوئے ہے۔ یہ کتب خانہ لکھا ہوا نہ ہو، تب بھی وہ کائنات کے ریکارڈ میں پوری طرح محفوظ ہے۔
قیامت وہ دن ہے، جب کہ ہر انسان کی لکھی یا بغیر لکھی کتابیں، کھل کر سامنے آجائیں گی۔ اس وقت ہر انسان یہ جانے گا کہ اس نے اپنی زندگی میں کیا کھویا ، اور کیا پایا۔ اس نے کس موقع کو اویل کیا، او ر کس موقع کو ضائع کردیا۔ ہر انسان کا یہ کارنامۂ حیات ایک زندہ کتب خانے کی حیثیت سے اس کے سامنے آجائے گا۔ انسان، چاہے یا نہ چاہے، اس کی اپنی پوری زندگی کا ریکارڈ اس کے سامنے آجائے گا۔ انسان مجبور ہوگا کہ وہ اپنی لکھی ہوئی کتاب کو پڑھے۔
انسان کی یہ خود نوشت سوانح حیات اس کی اپنی قابلِ فہم زبان میں ہوگی۔ اس صورت حال کا سب سے زیادہ سنگین پہلو یہ ہوگا کہ کوئی بھی انسان اس پوزیشن میں نہ ہوگا کہ وہ اپنی زندگی کی کہانی کو ری رائٹ (re-write) کرے۔ کسی کو یہ موقع نہ ہوگا کہ وہ اپنی زندگی کی کہانی کا دوبارہ لکھا ہوا ایڈیشن تیار کرے۔ اس سوانح عمری کا پہلا ایڈیشن لکھنا، ہر انسان کے بس میں ہوگا، لیکن اس کہانی کا ریوائزڈ ایڈیشن (revised edition) تیار کرنا کسی انسان کے بس میں نہ ہوگا۔ کوئی بھی عورت یا مرد اس پر قادر نہ ہوگا کہ وہ اپنی سوانح حیات کاحسبِ خواہش ایڈیشن تیار کرے، جس کو وہ خود پڑھے، اور دوسروں کو پڑھنے کے لیے دے۔یہ ہر انسان کا مقدر ہے۔ یہ مقدر بہرحال اس کے سامنے آنے والا ہے۔ آدمی نہ چاہے تب بھی ، اور چاہے تب بھی۔
واپس اوپر جائیں
السلام علیکم مولانا صاحب، میں ایک مسلم خاتون ہوں، میری عمر
مذکورہ خاتون بلاشبہ دوسروں کے لیے ایک اچھا نمونہ ہیں۔ وہ یہ کہ کس طرح آسانی کے ساتھ ون مین ٹومشن بننا ممکن ہے۔ وہ ایک ایسی خاتون ہیں، جو ون مین ٹو مشن کی ایک اچھی مثال ہیں، یعنی جاب کرنا، اور اسی کے ساتھ دعوت کا کام بھی کرنا۔ ایسے لوگوں کو اللہ تعالی کی جانب سے یقینا ً ڈبل ریوارڈ ملنے والا ہے۔ یعنی جائز طریقے سے اپنی روزی حاصل کرنا، اور اسی کے ساتھ اپنے دائرے میں دعوت کا کام بھی کرنا۔ اللہ تعالی ان کے عمل میں برکت عطا فرمائے، اور ان کو دنیا اور آخرت میں بہترین مقام سے نوازے۔
واپس اوپر جائیں
سی پی ایس انٹرنیشنل کا پرائم مقصد تمام انسانوں خدا کے منصوبۂ تخلیق سے آگاہ کرنا ہے۔ اس سلسلے میںوہ دیگر دعوتی ایکٹیویٹیز کے علاوہ بک میلے میں بھی حصہ لیتی ہے۔ کیوں کہ یہاں پر زیادہ تعداد میں وہ لوگ آتے ہیں، جن کو مطالعے سے دلچسپی ہو۔ حالیہ دنوں میں منعقدہونے والے کچھ مشہور بک فیر یہ ہیں کراچی انٹرنیشنل بک فیر (
٭ نئی دہلی ورلڈ بک فیر میں سی پی ایس انٹرنیشنل، نئی دہلی نے گڈ ورڈ بکس کے ساتھ مل کر حصہ لیا تھا۔ مشہور اردو اخبار روزنامہ سہارا (کولکاتا ایڈیشن )نے19 جنوری 2020کےاپنے امنگ ایڈیشن ( صفحہ 4)میں اس عنوان کے تحت ایک آرٹیکل شائع کیا ’’توجہ کا مرکز رہا گڈورڈ‘‘۔ مضمون کا خلاصہ یہ ہے اسلامی کتابوں کو دستیاب کراتے وقت اکثر کچھ باتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا۔ مثلاً بچوں کو مذہب آسانی سے سمجھایا جائے، ان لوگوں کے لیے عام فہم زبان میں مذہبی کتابیں لکھی جائیں جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں، غیر مسلموں کے لیے مذہبی کتابیں انگریزی، ہندی اور دیگر زبانوں میں ہوں۔ان موضوعات پر کتابیں ہوں، جنھیں پڑھ کر کوئی اسلام کے انسانیت کے پیغام کو سمجھ سکے۔ یہ جان سکے کہ اسلام نے امن سے زندگی بسر کرنے اور بھائی چارے پر بہت زور دیا ہے۔ لیکن ان تمام باتوں کا خیال ’گڈورڈ بکس‘ نے رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی کتاب میلہ میں اس کے اسٹال پر بڑی تعداد میں غیرمسلم بھی نظر آئے، جو اسٹال سے قرآن کا ترجمہ حاصل کررہے تھے۔
٭ نئی دہلی بک فیر کا ایک تجربہ یہ ہے کہ جب میں نےایک سکھ طالبہ کو جب قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا ، تو اس نے شکریہ کے ساتھ قرآن کا ترجمہ لے لیا۔ مگر کچھ دیر کے بعد اس نے قرآن کا ترجمہ یہ کہتے ہوئے واپس کردیا کہ یہ آپ واپس لے لیجیے، شاید میں اس کی رسپکٹ نہیں کر پاؤں گی۔ جب وہ قرآن واپس کررہی تھی، تو اس وقت اسٹال پر ایک اور سکھ نوجوان قرآن لے رہا تھا۔ اس نے رسپکٹ کی بنیاد پر قرآن نہ لینے کی بات سن کر کہا میں اس قرآن کو لے جارہا ہوں، اور میں اس کو ضرور رسپکٹ دوں گا، اور پڑھوں گا (مولانا فرہاد احمد)۔
٭ مسٹر فراز خان (دہلی ٹیم)کے ساتھ جے پور لٹریچر فیسٹیول میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔یہ جب قرآن کا ترجمہ لوگوں کو دے رہے تھے،تو وہاں پر غیر مسلم نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا ایک گروپ آیا۔ ان لوگوں نے قرآن دیکھا ، تو ان میں سے ایک لڑکی نے آگے بڑھ کر ترجمۂ قرآن لینا چاہا ۔یہ دیکھ کر اس کے ایک ساتھی نے اس لڑکی سے پوچھا کہ تم نے گیتا پڑھی، جو تم قرآن پڑھنا چاہتی ہو۔ لڑکی نے جواب دیاکہ کوئی بات نہیں،میں پہلے قرآن پڑھ لیتی ہوں، اس کے بعد گیتا بھی پڑھ لوں گی۔ یہ کہہ کر اس نے ترجمۂ قرآن حاصل کیا۔ اس بعد تمام لوگوں نے بہت خوشی سے قرآن کا ترجمہ شکریہ کہتے ہوئے حاصل کیا۔
مولانا سید اقبال احمد عمری (تامل ناڈو)نے جے پور لٹریچر فیسٹیول اور کنڑا ساہتیہ سمیلن میں حصہ لیا تھا۔ انھوں نے اپنا تاثر درج ذیل الفاظ میں لکھا ہے
٭جے پور لٹریچر فیسٹیول میں ترجمۂ قرآن لینے والوں کے تاثرات بہت اچھے رہے۔ مثلاً ایک صاحب نے کہا کہ جو ترجمۂ قرآن آپ تقسیم کرتے ہیں،وہ میں نے پڑھا ہے، یہ بہت آسان اور عمدہ ہے۔اسی طرح ایک نان مسلم خاتون نے جب قرآن کو دیکھا تو قریب آکر خوشی سے کہا اوہ قرآن،کیا یہ مجھے مل سکتا ہے،اس کی قیمت کیا ہے۔میں نے کہا کہ یہ آپ کے لیے اسپریچول گفٹ ہے۔ تو انھوں نے کہا کہ ریلی فری آف کوسٹ ،ویری گڈ، اور بخوشی لیکر چلی گئیں۔ اس طرح بہت سے لوگ خوشی خوشی قرآن کا ترجمہ مانگ کر لے گئے ۔
٭ 5تا7فروری 2020 کنڑا ساہتیہ سمیلن کلبرگی (سابق گلبرگہ) کرناٹک میں منعقد ہوا۔اس میں رائچور، بنگلور، چنئی، تماپور،اور گلبرگہ کی سی پی ایس ٹیموںنے مل کر گڈورڈ کا بکس سٹال لگایا، اور الرسالہ مشن کی اردو اور انگریزی کتابیں ، خصوصاً پاکٹ سائز کا کنڑا ترجمۂ قرآن رعایتی قیمت پر دیا۔ ہمارے اسٹال پر آنے والے زیادہ تر نان مسلم تھے، انھوں نےقیمت ادا کرکے تقریباً ایک ہزارترجمۂ قرآن لیا۔ قرآن کو ہاتھ میں لیتے وقت ان کے چہرے کی خوشی، اور ان کے کہے ہوئے الفاظ ،دونوںدعوتی مشن کو بوسٹ (boost)کرنے والے بنے۔ مثلاً ایک صاحب نے کہا کہ کئی سال سے میں کنڑ اترجمۂ قرآن کی تلاش میں تھا۔ آج میں نے اس کو حاصل کرلیا۔ایک صاحب نے قرآن اپنے ہاتھ میں لیکر اسے کھولا، اور پڑھنا شروع کیا ۔اس کے بعد اس نے کہا کہ میں نے صرف دو سطریں پڑھی ہیں۔ میرے سر کا بوجھ ہلکا ہوگیاہے، اورمیرا جسم کانپ رہا ہے۔ ایک نان مسلم نے سوال کیا کہ آپ قرآن دے رہے ہیں، قرآن کے بارے میں آپ کا اپنا ذاتی تجربہ کیا ہے؟ اس سوال نے مجھے اندر سے ہلا دیا۔ اس نے مجھے دوبارہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی ترغیب دی۔ اسی طرح دو عیسائی نوجوان آئے، اور انھوں نے ہمارے اسٹال سے بائبل تقسیم کرنے کی اجازت مانگی۔ ہم نے ان کو اجازت دےدی۔ جب بائبل دے رہے تھے، تو ساتھ ہی ساتھ وہ ہمارے پاس موجود پیغمبر اسلام کی سیرت کی کتابیں بھی آنے والوں کو دے رہے تھے، اورقرآن بھی ۔ اس تجربہ سے مجھے یہ سبق ملا کہ دوسروں کوموقع دو گے، تو مزیدمواقع ملیں گے ۔ ان تجربات سے اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ مدعو کی زبان میں قرآن کی اشاعت ہی وہ گول ہے، جس کو سنگل گول کی حیثیت سے اپنی زندگی میں اختیار کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں
اکثر دیکھا گیا ہے کہ لوگ موت سے غافل رہتے ہیں۔ حتی کہ ایک شخص کو مرتے ہوئے دیکھتے ہیں، پھر بھی انھیں موت کی یاد نہیں آتی۔ اس غفلت کا سبب یہ ہے کہ لوگ اللہ رب العالمین سے غافل ہیں، اس لیے وہ موت سے بھی غافل بنے ہوئے ہیں۔ اگر لوگوں کے اندر موت کی یاد کو زندہ کرنا ہےتو اس سے پہلے ان کے اندر اللہ پر یقین کو زندہ کرنا ہوگا۔ اللہ پر یقین کے بغیر لوگوں کے اندر موت کا زندہ یقین پیدا نہیں ہوسکتا۔ آج کل حالت یہ ہے کہ آپ کوئی کتاب پڑھیں، یا کسی مجلس میں شرکت کریں، ہر جگہ آپ کو دوسری دوسری باتیں تو سننے کو ملیں گی، لیکن اللہ پر زندہ یقین، نہ میر مجلس کے اندر ہوگا اور نہ حاضرینِ مجلس کے اندر ۔لوگ اللہ کے بارے میں صرف یہ جانتے ہیں کہ زبان سے لا الہ الا اللہ کہہ دیا جائے۔ مگر اس قسم کا قول ہرگز کافی نہیں۔ ضروری ہے کہ آپ کے اندر اللہ کا زندہ یقین ہو۔ اس کے بعد ہی آپ کے اندر موت کا زندہ یقین پایا جاسکتا ہے۔
آپ لوگوں سے ملیے،اور لوگوں کے پاس بیٹھ کر یا ان کی باتیں سن کر اندازہ کیجیے۔ آپ کو بہت جلد یہ حقیقت دریافت ہوگی کہ اللہ پر وہ یقین لوگوں کے دلوں میں موجود نہیں، جو قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللَّہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ(
His throne extends over the heavens and the earth.
جب لوگوں کے اندر اللہ رب العالمین پر زندہ یقین نہ ہو تو ان کےاندر موت اور آخرت پر زندہ یقین کہاں سے پیدا ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
زندگی میں آدمی کے لیے بہت سے مسئلے آتے ہیں۔ مثلاً بیماری، حادثہ، نقصان، وغیرہ۔ لیکن بڑھاپا ایک بالکل مختلف قسم کا مسئلہ ہے۔ بڑھاپا گویا خاتمۂ حیات کا نام ہے۔ بڑھاپا ہمیشہ پوائنٹ آف نو رِٹرن (point of no return) پر آتا ہے۔ بڑھاپا ہر اعتبار سے انسان کے لیے صرف ایک مسئلہ ہے۔
لیکن بڑھاپے کا ایک مثبت پہلو ہے، جو صرف بڑھاپے سے حاصل ہوتا ہے، اور وہ عجز (helplessness)کی دریافت ہے۔ عجز کی دریافت دوسرے اسباب سے بھی جزئی طور پر ہوتی رہتی ہے، لیکن کامل معنوں میں عجز کی دریافت صرف بڑھاپے سے حاصل ہوتی ہے۔ کیوں کہ بڑھاپاکسی آدمی کو اس وقت آتا ہے، جب کہ اس کا جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے۔انسان کا جسم فطری طور پرایک بہترین ساخت پر قائم ہے۔ اس جسم کو تقریباً 80 آرگن (organs)نہایت اعلیٰ مینجمنٹ کے ساتھ چلارہے ہیں۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ یہ آرگن جزئی یا کلی طور پر اپنا فنکشن بند کردیتے ہیں۔اس فنکشن کو دوبارہ جاری نہیں کیاجا سکتا۔ کسی آرگن کے فیل ہونے کا آخری نتیجہ موت ہوتا ہے۔
عجز بلاشبہ حقیقتِ اعلیٰ کی دریافت ہے۔ حقیقتِ اعلیٰ کی دریافت کے بغیر انسان کی شخصیت ایک ناقص شخصیت ہوتی ہے۔ ناقص شخصیت کا مکمل ہونا، صرف اس وقت ہوتا ہے، جب کہ انسان بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے۔ بڑھاپے کا دور سب سے بڑی دریافت کا دور ہے۔ لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ بوڑھا انسان صرف ایک بات کو جان پاتاہے۔ وہ یہ ہے کہ اس کو نظر انداز (neglect)کیا جارہا ہے۔ بوڑھا انسان مسلسل طور پر صرف شکایت (complaint) میں جیتا ہے۔ کم از کم میں نے کسی بوڑھے انسان کو نہیں پایا، جو بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے کے باوجود شکایت کی نفسیات سے بچا ہوا ہو۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو اکثر حالت میں ایسا ہوتا ہے کہ مادی اعتبار سے انسان کا جسم اگرچہ بوڑھا ہوجاتا ہے، لیکن اس کا ذہن بدستور کام کرتا رہتا ہے۔ مزید یہ کہ اس کا ذہن پہلے سے بہتر ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ اس کے ذہن میں تجربات کا اضافہ ہوجا تاہے۔ انسا ن اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ گہرے انداز میں معاملات پر رائے قائم کرسکے۔ پہلے اگر وہ صرف جاننے والا تھاتو اب وہ ایک دانش مند انسان بن جاتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ بصیرت افروز انداز میں معاملات پر اپنی رائے دے سکے۔ وہ لوگوں کو زیادہ صائب (rational) انداز میں درست مشورہ دے سکے۔ بوڑھا انسان ایک پختہ (mature) انسان ہوتا ہے۔ وہ اپنے تجربات کی بنا پر اس قابل ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو زیادہ نتیجہ خیز رہنمائی دے سکے۔
انسان کی سب سے بڑی دریافت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو ڈسکور کرے۔ یہ دریافت ہر لمحے ہوسکتی ہے۔ لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ آدمی بڑھاپے سے پہلے بُھلاوَہ کلچر میں جیتا ہے۔ وہ بھلاوہ کلچر سے صرف اُس وقت باہر نکلتا ہے، جب کہ وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچے۔ جب اس کے آرگن کام کرنا بند کرنے لگیں۔ یہی اصلی عجز کی دریافت کا وقت ہوتا ہے، اور یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب کہ انسان شعوری طور پر قادرِ مطلق خدا کو دریافت کرے، لیکن انسان اپنی بے خبری کی بنا پر یہ کرتاہے کہ اپنی زندگی کے پہلے دور میں وہ بے خبری (unawareness) میں جیتا ہے، اور دوسرے دور میں شکایت کی نفسیات میں۔ اس طرح انسان اپنی طاقت کے دور کو بھی کھودیتا ہے، اور اپنے ضعف کے دور کو بھی۔
بڑھاپے کی عمر پختگی (maturity) کی عمر ہوتی ہے۔ اس زمانے میں انسان کا تجربہ (experience) بڑھ جاتاہے۔ انسان اس قابل ہوتا ہے کہ وہ زیادہ معلومات کی روشنی میں غور وفکر کرے۔ یہ چیزیں انسان کی عقل میں اضافہ کرتی ہیں۔ انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ لوگوں کو زیادہ دانش مندانہ رائے دے سکے۔ عمر رسیدہ آدمی سماج میں اس قابل ہوتا ہے کہ وہ زیادہ دینے والا (giver) بن کر رہ سکے۔ بوڑھا آدمی اگر صرف ایک کام کرے کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھے، جس میں اس نے اپنی زندگی کے تجربات بیان کیے ہوںتو ہر آدمی اپنی سوسائٹی کا ایک عظیم دینے والا (great giver) بن کر دنیا سے رخصت ہوگا۔
واپس اوپر جائیں
مکیش ہندی سنیما کے ایک نہایت مشہور پلےبیک سنگر تھے۔ ان کو وائس آف ملینیم (Voice of the Millennium) اور ٹریجڈی کنگ (Tragedy King) کہاجاتا ہے۔ وہ دہلی میں 1923 ء کو پیداہوئے۔
ہر انسان جو اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، وہ خالق کے پیدا کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ خالق ہر انسان کو مختلف قسم کی صلاحیتیں دے کر دنیا میں بھیجتا ہے۔ ہر انسان کو اس دنیا میں کوئی پرفارمنس دینا ہے۔ ہر انسان امکانی (potential)طور پر ویل اکوئپڈ(well equipped) انسان کی حیثیت سے پیدا ہوتا ہے، تاکہ وہ اپنےامکانات کو جانے، اور اس کے مطابق، اپنا مطلوب رول اعلیٰ درجے میں ادا کرسکے۔ ہر انسان پر لازماً موت آتی ہے۔ موت کے بعد ہر انسان اپنے خالق کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ وہاں اس سے پوچھا جائے گا کہ تم نے اپنا مطلوب رول ادا کیا یا نہیں۔
ہر عورت اور مرد کو اسی سوچ کے ساتھ دنیا میں زندگی گزارنا ہے۔ ہر عورت اور مرد کو اپنے بارے میں یہ دریافت کرنا ہے کہ وہ کون سا رول ادا کرنے کے لیے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے، اور کیا وہ اس رول کو دنیا میں ادا کررہا ہے یا نہیں۔ یہی ہر انسان کا امتحان ہے۔ جو اس امتحان میں پورا اترے، وہ کامیاب ہے، اور جو اس امتحان میں پورا نہ اترے، وہ ناکام ہے۔ مکیش کوٹریجڈی کنگ کہا جاتا ہے۔ غالباً مکیش کا رول یہ تھا کہ وہ انسان کو بتائے کہ اس دنیا میں انسان کس طرح ٹریجڈی میں اپرچنٹی (opportunity) کو دریافت کرے، وہ کس طرح اپنی ناکامی کو کامیابی میں کنورٹ کرے۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میںزندگی کی ایک حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (
سروے کے مطابق، اس دنیا میں انسان کی اوسط عمرتقریباً80 سال ہے۔ ہر انسان کے ساتھ یہ واقعہ پیش آتا ہے کہ وہ ایک بچے کی حالت میں پیدا ہو۔ پھر وہ جوان ہو۔ اس کو بیماری اور حادثہ جیسے تجربات پیش آئیں۔ زندگی کے مختلف مرحلوں سے گزرتے ہوئے وہ بڑھاپے کی عمر تک پہنچے۔ پھر کوئی شخص کم عمری میں مرجائے، اور کوئی شخص زیادہ عمر کو پہنچ کر دنیا سے رخصت ہوجائے۔زندگی اور موت کا یہ تجربہ رب العالمین کے تخلیقی نقشے کے مطابق پیش آتا ہے۔ اس تخلیقی نقشے کوقرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً (
قرآن کی اس آیت کے مطابق، پیدا ہونے کے بعد انسان پر زندگی کے جو مختلف مرحلے پیش آتے ہیں، وہ ایک موقع (opportunity) کے طور پر پیش آتے ہیں۔ یعنی مختلف تجرباتِ حیات سے گزار کر انسان کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو احسن العمل (best in conduct) کی حیثیت سے ڈیولپ کرے۔ وہ اپنے آپ کو بہترین شخصیت کی حیثیت سے تیار کرے۔اس کے بارے میں نگراں فرشتے یہ ریکارڈ کررہے ہیں کہ کن حالات میں وہ کیسا رسپانس (response) دیتا ہے۔ اگر اس کی زندگی کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ وہ جنت کی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہےتو اس کا انتخاب جنتی شہری کی حیثیت سے کیا جاتا ہے، ورنہ اس کو کائناتی کوڑا خانے میں ڈال دیا جاتا ہے، جہاں وہ ہمیشہ کے لیے حسرت کی زندگی گزارتا رہے۔
واپس اوپر جائیں
زندگی ہر انسان کے لیے ایک انتظار ہے۔ یہ انتظار کاؤنٹ ڈاؤن کی تکمیل کا انتظار ہے۔ ہر انسان جواس دنیا میں پیدا ہوتا ہے،وہ متعین عمرکے ساتھ پیداہوتا ہے۔ پیدا ہوتے ہی ہر انسا ن کا کاؤنٹ ڈاؤن ٹائمر(countdown timer) بھی چلنے لگتاہے۔ مثلاً ایک شخص یکم جنوری 1901 کوپیدا ہوا ہے، اور اس کی عمر 70 سال لکھی ہوئی ہےتو کاؤنٹ ڈاؤن کا مطلب یہ ہے کہ ہر دن اس کی عمر میں ایک دن کم ہورہا ہے۔ مثلاً پیدا ہونے کے بعد پہلے دن اگر اس کی عمر 70 سال تھی تو اگلے سال اس کی عمرمیں سے
موت ہر آدمی کا پیچھا کررہی ہے۔ہر روزانسان کی عمر کا ایک دن کم ہوجا تا ہے۔ تاہم بچپن اور جوانی کی عمر میںوہ اس سے غافل رہتا ہے۔ بالآخرقانونِ فطرت غالب آتا ہے۔ بڑھاپے میں جب اس کی طاقتیں گھٹ جاتی ہیں، تب اسے محسوس ہوتا ہے کہ اب بہر حال کچھ دنوں کے بعد وہ مرجائے گا۔ اس وقت وہ مجبور ہوتا ہے کہ سوچے کہ ’’مرنے کے بعد کیا ہونے والا ہے‘‘۔ اسے تلاش ہوتی ہے کہ وہ کوئی امید کی کرن پالے ،جو موت کے بعد آنے والے حالات میں اس کو روشنی دے سکے۔
بڑھاپا ہر آدمی کے لیے اِس بات کی خبر ہوتا ہے کہ موت قریب آگئی۔ اِس کے بعد جب اس کو بیماریاں لگتی ہیںتو وہ آدمی کو مزید جھنجھوڑنے کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ اِس لیے ہوتی ہیں کہ آدمی اگر سورہا ہے تو وہ جاگ جائے۔ اور اگر وہ جاگ گیا ہے تو وہ اٹھ جائے، اور اگر وہ اٹھ گیا ہے تو وہ چلنے لگے۔ بڑھاپا اور بڑھاپے میں آنے والی کمزوری اور بیماری ہمیشہ اِس لیے آتی ہے کہ آدمی الرٹ ہوجائے۔ وہ موت سے پہلے موت کی تیاری کرنے لگے۔ وہ موت کے بعدآنے والے حالات پر سوچے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی آخری منصوبہ بندی کرے۔ لیکن انسان واقعات سے سبق نہیں لیتا۔ بڑھاپا اور بیماری اُس کو موت کی خبر دیتے ہیں، لیکن وہ موت کے بارے میں سوچنے کے بجائے صرف علاج کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے پیچھے دوڑتا ہے، یہاںتک کہ وہ ناامیدی کے ساتھ مرجاتا ہے۔ دوبارہ جو چیز اُس کو ملتی ہے، وہ تندرستی نہیں ہے، بلکہ موت ہے۔
کاؤنٹ ڈاؤن کا یہ پراسس ہر آدمی کے ساتھ ہورہا ہے۔ہر دن جب سورج غروب ہوتا ہے تو عملاً وہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اب آپ کی عمر کا ایک دن کم ہو چکا ہے۔ کم ہوتے ہوتے ، وہ لمحہ آجاتا ہے، جب کہ آپ کے پاس صرف ایک دن باقی رہتا ہے، اس باقی ماندہ ایک دن کو یا تو آپ استعمال کرلیجیے، یا اس بات کا انتظار کیجیے کہ وہ آخری دن آپ کی موت کا فیصلہ کن دن بن جائے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر آدمی روزانہ اپنے آس پاس کے ماحول میں دیکھتاہے، لیکن کوئی آدمی اُس سے سبق نہیں لیتا۔ اِس معاملے میں ہر آدمی اندھا بنا ہوا ہے۔ وہ صرف اِس انتظار میں ہے کہ موت اس کی آنکھ کھولے۔ لیکن موت کے بعد آنکھ کاکھلنا، کسی عورت یا مرد کے کچھ کام آنے والا نہیں۔ زندگی کا یہ تصور بلاشبہ ایک لرزا دینے والا تصور ہے۔ کیوں کہ آپ کی عمر کا آخری دن بھی جب ختم ہوجائےتو اس کے بعد آپ خالی ہاتھ ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد آپ کے پاس اپنا کچھ باقی نہیں رہتا۔ کاؤنٹ ڈاؤن کا آخری دن یاد دلاتا ہے کہ اب وہ آخری لمحہ آگیا، جب کہ آپ بالکل اکیلے ہوجائیں گے۔ جب کہ ایک طرف آپ ہوں، اور دوسری طرف رب العالمین ہو۔
قرآن میں اس دن کے بارے میں آیا ہے: یَوْمَ یَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِینَ (
واپس اوپر جائیں
ایک شخص کی عمر
یہ ایک انسان کی کہانی نہیں ہے، بلکہ یہی تقریباً تمام عورت اورمرد کی کہانی ہے۔ بڑھاپا ہر آدمی کے لیے اِس بات کی خبر ہوتا ہے کہ موت قریب آگئی۔ اِس کے بعد جب اس کو بیماریاں لگتی ہیںتو وہ آدمی کو مزید جھنجھوڑنے کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ اِس لیے ہوتی ہیں کہ آدمی اگر سورہا ہے تو وہ جاگ جائے۔ اور اگر وہ جاگ گیا ہے تو وہ اٹھ جائے۔ اور اگر وہ اٹھ گیا ہے تو وہ چلنے لگے۔ بڑھاپا اور بڑھاپے کے بعد آنے والی کمزوری اور بیماری ہمیشہ اِس لیے آتی ہے کہ آدمی چونک اُٹھے۔
وہ موت سے پہلے موت کی تیاری کرنے لگے۔ وہ موت کے بعدآنے والے حالات پر سوچے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی آخری منصوبہ بندی کرے۔ لیکن انسان واقعات سے سبق نہیں لیتا۔ بڑھاپا اور بیماری اُس کو موت کی خبر دیتے ہیں، لیکن وہ موت کے بارے میں سوچنے کے بجائے صرف علاج کے بارے میں سوچتا ہے۔ وہ ڈاکٹروں اور اسپتالوں کے پیچھے دوڑتا ہے، یہاںتک کہ وہ ناامیدی کے ساتھ مرجاتا ہے۔ دوبارہ جو چیز اُس کو ملتی ہے، وہ تندرستی نہیں ہے، بلکہ موت ہے۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر آدمی روزانہ اپنے آس پاس کے ماحول میں دیکھتاہے، لیکن کوئی آدمی اُس سے سبق نہیں لیتا۔ اِس معاملے میں ہر آدمی اندھا بنا ہوا ہے۔ وہ عملاًصرف اِس انتظار میں ہے کہ موت اس کی آنکھ کھولے۔ لیکن موت کے بعد آنکھ کاکھلنا، کسی عورت یا مرد کے کچھ کام آنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
قرآن میں آیا ہے :کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (
زندگی کو جاننے والا شخص وہ ہے، جو زندگی کو ایک موقع کی صورت میں دریافت کرے، اور پھر منصوبہ بند انداز میں اس موقع کو استعمال کرے۔ یہی انسان کامیاب انسان ہے۔ ایسے انسان کے لیے زندگی بھی بامعنی ہے، اور موت بھی بامعنی۔ اس کے برعکس کیس، اس انسان کا کیس ہے، جو دنیا میں اس طرح جیے کہ وہ زندگی کی حقیقت سے بے خبر ہو، اور موت کی حقیقت سے بھی بے خبر رہے۔ جو بے خبری میں جیے ، اور بے خبری کی حالت میں مر جائے۔ایسے انسان کو نہ زندگی سے کچھ ملا، اور نہ وہ موت سے کچھ پانے والا ہے۔ ایسے انسان کے لیے زندگی بھی محرومی ہے، اور موت بھی محرومی۔
زندگی ایک آغاز ہے۔تاہم موت اس آغاز کا خاتمہ نہیں۔ زندگی ایک کتاب کی مانند ہے۔ ایک انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ گویا کہ اپنی کتاب کو لکھنا شروع کرتا ہے۔ لکھنے کا یہ کام آدمی خود کرتا ہے۔ آدمی کی سوچ ، اس کا عمل ، اس کامنصوبہ، اس کی آرزوئیں، اس کی تمنائیں، اس کی ناکامی، اور اس کی کامیابی ، یہ تمام چیزیں انسان کی خود نوشت سوانح عمری کے ابواب ہیں۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَکُلَّ إِنْسَانٍ أَلْزَمْنَاہُ طَائِرَہُ فِی عُنُقِہِ وَنُخْرِجُ لَہُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ کِتَابًا یَلْقَاہُ مَنْشُورًا ۔اقْرَأْ کِتَابَکَ کَفَى بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیبًا (
واپس اوپر جائیں
آخرت کا دن تمام انسانوں کے لیے ، بالفاظِ دیگر پوری انسانی تاریخ کے لیے فیصلے کا دن ہوگا۔ اس دن موقع گنوانے والے کے ساتھ کیا پیش آئے گا، اس کا ذکر قرآن کئی مقام پر آیا ہے۔ ان میں سےایک آیت یہ ہے:کَذَلِکَ یُرِیہِمُ اللَّہُ أَعْمَالَہُمْ حَسَرَاتٍ عَلَیْہِمْ وَمَا ہُمْ بِخَارِجِینَ مِنَ النَّارِ (
یومِ حسرت سے مراد ہےday of regret۔ آخرت کے دن انسان اس بات پر بے پناہ حسرت کرے گا کہ آہ، اس کو خالق نے کیسا اعلیٰ موقع دیا تھا، لیکن اس نے اس موقع کو اویل (avail) نہیں کیا۔ آخرت میں یہ حسرت انسان کے لیے حسرت کی آگ بن جائے گی۔ وہ محرومی کے شدید احساس کے ساتھ سوچے گا کہ کیسا عجیب موقع تھا، جو اس سے کھویا گیا۔ آدمی اپنی گزری ہوئی زندگی کو حسرت کے ساتھ دیکھے گا ،اور کچھ نہ کرسکے گا۔
آدمی دنیا میں ناکامی سے دو چار ہوتا ہے تو اس کو موقع ہوتا ہے کہ وہ دوبارہ نئی زندگی شروع کرسکے۔ اس کے پاس ساتھی اور مددگار ہوتے ہیں جو اس کو سنبھالنے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں، مگر آخرت کی ناکامی ایسی ناکامی ہے، جس کے بعد دوبارہ سنبھلنے کا کوئی امکان نہیں۔ کیسا عجیب حسرت کا لمحہ ہوگا جب آدمی یہ جانے گا کہ وہ سب کچھ کرسکتا تھا۔ مگر اس نے نہیں کیا۔ یہاں تک کہ کرنے کا وقت ہی ختم ہوگیا۔حسرت (regret) بھی ایک آگ کی مانند ہے۔ جس طرح معروف آگ مادی آگ ہے۔اسی طرح حسرت نفسیاتی آگ ہے۔ حسرت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو شدید احساس ہو کہ آہ کیسا قیمتی موقع تھا، جو اس سے کھویا گیا۔
واپس اوپر جائیں
زندگی ہر انسان کے لیے ایک سفر ہے، اور موت وہ لمحہ جب کہ اس سفر پر آخری فل اسٹاپ (full stop)لگ جاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں بار بار مختلف قسم کے وقفے آتے ہیں۔ مگر یہ وقفے صرف کاما (،) ہوتے ہیں۔ مثلاً آپ اپنے وطن سے سفر کرکے کسی دوسرے مقام پر جاتے ہیں، اور پھر اپنے مقام پر دوبارہ واپس آجاتے ہیں تو یہ کاما (،) کا ایک واقعہ ہوتا ہے، نہ کہ فل اسٹاپ کا ایک واقعہ۔ مگر موت ہمیشہ پوائنٹ آف نو رِٹرن پر آتی ہے۔ موت ہر آدمی کے لیے ایک فل اسٹاپ ہے۔ اس معاملے میں آدمی کے لیے سوچنے کا موقع صرف اس وقت تک ہے، جب کہ اس کی موت نہ آئی ہو۔ موت کے آتے ہی دفعۃً سوچنے کا موقع ختم ہوجاتا ہے۔ موت سے پہلے آدمی کے لیے کرنے کا موقع ہوتا ہے، اور موت کے بعد آدمی کے لیے اپنے کیے ہوئے کو بھگتنے کا موقع۔
موت کا سب سے زیادہ سنگین پہلو یہ ہے کہ وہ اعلان کرکے نہیں آتی، بلکہ اچانک آتی ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ موت کا فرشتہ پیشگی طور پر آکر آدمی کو بتادے کہ فلاں وقت پر موت آنے والی ہے، تم کو جو تیاری کرنا ہے، وہ کرلو۔ اس کے برعکس، جو ہوتا ہے ، وہ یہ کہ موت بالکل اچانک آجاتی ہے۔ زندگی اور موت کے درمیان جو واقعہ پیش آتا ہے،و ہ صرف اس حادثے کا نام ہے، جس کو انسانی زبان میں غرغر ہ کہاجاتا ہے۔اس سلسلے میں ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:إِنَّ اللَّہَ عَزَّ وَجَلَّ لَیَقْبَلُ تَوْبَةَ الْعَبْدِ، مَا لَمْ یُغَرْغِرْ(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 4253)۔ یعنی اللہ عز وجل بندے کی توبہ اس وقت تک قبول کرتا ہے، جب تک اس پر غرغرہ نہ طاری ہوجائے:
Allah accepts the repentance of man so long as the death rattle has not yet reached his throat.
موت کسی آدمی کے لیے موجودہ دنیا سے انقطاعِ کلی (total detachment) کا نام ہے۔ آدمی جب تک موجودہ دنیا میں ہے، وہ اپنے آپ کو دنیا کا ایک اٹوٹ حصہ سمجھتا ہے۔ وہ اس نفسیات میں جیتا ہے کہ یہ میرا گھر ہے، یہ میری فیملی ہے، یہ میرا مال ہے،یہ میرے لوگ ہیں، یہ میری بنائی ہوئی دنیا ہے، وغیرہ۔ مگر موت آتے ہی اس کی ڈکشنری سے یہ تمام الفاظ اچانک ڈیلیٹ ہوجاتے ہیں۔ اب وہ اپنے آپ کو کامل معنوں میں اکیلا پاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے تو اس کو نہ اپنے آگے کوئی دکھائی دیتا ہے، اور نہ اپنے پیچھے، اس کو نہ اپنے دائیں طرف کوئی دیکھائی دیتا ہے، اور نہ اپنے بائیں طرف۔ حتی کہ اس کے قدموں کے نیچے کی زمین بھی جہاں وہ کھڑا ہوا ہے، اس کی اپنی زمین نہیں ہوتی۔ یہ اس کے لیے آخری حد تک ایک تنہائی اور بے بسی کا لمحہ ہوتا ہے۔
موت کا واقعہ آدمی کے لیے موت کے بعد کامل بے بسی کا واقعہ ہوگا۔ لیکن اگر آدمی موت کے واقعے کو موت سے پہلے سوچ لے تو موت کا واقعہ اس کے لیے سب سے بڑے انقلاب کے ہم معنی بن جائے گا۔ وہ انسان کو ایک اور انسان بنا دے گا۔ اس سوچ سے پہلے آدمی اگر جہنم کے کنارے پر کھڑا ہوا تھا تو اب وہ اچانک اپنے آپ کو جنت کے کنارے کھڑا ہوا پائے گا۔ موت بلاشبہ کسی آدمی کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ ہے، اس سے بڑا واقعہ اور کوئی نہیں۔ موت بظاہر ایک تین حرفی لفظ ہے۔ لیکن اپنے نتیجے کے اعتبار سے وہ اتنا بڑا واقعہ ہے کہ ڈکشنری کے تمام الفاظ بھی اس کی سنگینی کو بیان کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
موت کے بارے میں ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:أکْثِرُوا ذِکْرَ ہَادِمِ اللَّذَّاتِ، یَعْنِی الْمَوْتَ(سنن ابن ماجہ، حدیث 4258)۔یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو، جو لذتوں کو ڈھا دینے والی ہے۔ ایک شخص جب مرتا ہے، اور اس کو تکفین کے بعد قبر میں لٹایا جاتا ہےتو وہ ایک طوفان خیز منظر ہوتا ہے۔ آدمی کے اندر اگر بیدار ذہن موجود ہو تو تدفین کے منظر کو دیکھ کر اس کو حقیقی طور پر موت کی معرفت حاصل ہوجائے۔ اس تجربے کے بعد وہ یقینی طور پر ایک نیا انسان بن جائے گا۔ اس تجربے کے بعد وہ ایک ایسا انسان بن جائے گا جو ہر اعتبار سے ایک نیا انسان ہوگا، وہ ایسا محسوس کرے گا، جیسے کہ پہلے اگر وہ دنیا میں جینے والا بنا ہوا تھا تو اب وہ پورے معنوں میں آخرت میں جینے والا بن گیا ہے۔ آخرت کی دنیا میں داخل ہونے سے پہلے وہ آخرت کی دنیا میںداخل ہوگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں
ہر آدمی ایک مسافر ہے۔ ہر آدمی پیدائش سے موت کی طرف سفر کررہا ہے۔ طبعی عمر پورا کرنے کے بعد ہر آدمی ایک ایسی حد پر پہنچے گا، جہاں وہ محسوس کرے گاکہ اب اس کے لیے پوائنٹ آف نورِٹرن (point of no return) آگیا ہے۔ جہاں وہ صرف آگے جاسکتا ہے، پیچھے کی طرف لوٹنا، اب اس کے لیے ممکن نہیں ۔ انسان پر جب یہ لمحہ آئے گاتو اس کا عجیب حال ہوگا۔ وہ سوچے گا، مگر وہ سوچ نہیں پائے گا۔ وہ چلنے کی کوشش کرے گا، مگر وہ چل نہیں پائے گا۔ وہ پکارے گا، مگر کوئی سننے والا نہ ہوگا۔ وہ لوٹنا چاہے گا، مگر لوٹنے کے لیے کوئی راستہ نہیںملےگا۔ وہ اپنی زندگی کی ری پلاننگ کرنا چاہے گا، مگر اس کو بتانے والا بتائے گا کہ اب تمھارے لیے اپنی زندگی کی ری پلاننگ کا وقت ختم ہوچکا۔ یہ مایوسی کا وہ لمحہ ہوگا، جو اپنے آپ میں ایک ناقابلِ برداشت عذاب ہوگا۔ پوائنٹ آف نورِٹرن کا یہ لمحہ انسان کے لیے زندگی کے تمام کٹھن تجربات سے کٹھن تجربہ ہوگا۔
اگر آپ کو یہ احساس ہوجائے کہ آپ پر کسی بھی وقت وہ لمحہ آسکتا ہے، جو آپ کے لیے ہمیشہ کے لیے پوائنٹ آف نو رِٹرن کے ہم معنی ہوگاتو آپ آخری حد تک الرٹ ہوجائیں گے۔ آپ کو اگر یہ عادت ہے کہ آپ آدھا کام کر کےچھوڑ دیتے ہیںتو آپ چاہیں گے کہ آپ اپنی اس عادت کو ایک لمحے میں ترک کر دیں۔ اگر آپ آخرت فراموشی کی زندگی گزاررہے ہیںتو آپ فوراً آخرت کو یاد کرنے والے بن جائیں گے۔ اگر آپ کا یہ حال ہے کہ آپ اپنی غلطیوں کو بھولے ہوئے ہیں، اور آپ صرف دوسروں کی غلطیاں بتانے کے ماہر ہیںتو آپ فورا اس عادت کو چھوڑ دیں گے۔
آخرت میں ہر ایک کا معاملہ اس بنیاد پر ہوگا کہ اس نے اپنی خداداد صلاحیت (God-given quality) کو صحیح طورپر استعمال کیا یا نہیں۔جوانسان اِس زمین پر پیدا ہوتا ہے، اُس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو دریافت کرے۔ وہ اِس دنیا میں اپنے رول کو سمجھے، اور اللہ کی ہدایت کے مطابق، اپنے اِس رول (کر دار) کو پوری سنجیدگی کے ساتھ ادا کرے۔
واپس اوپر جائیں
موت کے بارے میں ایک حقیقت قرآن کی تین آیتوںمیں بیان ہوئی ہے۔ ان میں سےایک آیت یہ ہے:کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (
مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا ناتمام خواب دراصل یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو دریافت کرے۔ اس کی زندگی کے بارے میں اس کے خالق کا جو منصوبہ ہے، اس کو وہ مکمل کرے۔ یہ ہر آدمی کا خواب ہے۔ اس میں کوئی استثنا نہیں۔ انسان کے ساتھ مزید کیا ہونے والا ہے، اس کا اشارہ قرآن میں دومقامات پر آیا ہے۔ایک آیت کےالفاظ یہ ہیں:وَلَوْ أَنَّمَا فِی الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ یَمُدُّہُ مِنْ بَعْدِہِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ کَلِمَاتُ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ (
ان دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی آرزؤں کی تکمیل اس طرح ہونے والی ہے کہ اس کو موت کے بعد کی دنیامیں دوبارہ نئے مواقع زیادہ کامل انداز میں دیے جائیں۔ انسان ایک اور تہذیب (civilization) کی تکمیل کرے۔ وہ زیادہ معیاری انداز میںیونیورسٹی اور لائبریری جیسے ادارے بنائے، وہ اپنی علمی اور تعلیمی سرگرمیوں کو زیادہ اعلیٰ معیار پر قائم کرے۔
واپس اوپر جائیں
آدمی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد مسلسل طو رپر وہ زندگی کے تجربات میں جینے لگتا ہے۔ وہ مسلسل طور پر حالتِ زندگی میں رہتا ہے۔ اس مدت میں اس کو کبھی حالتِ موت کا تجربہ نہیں ہوتا۔ زندگی اس کے لیے روز مرہ کے تجربے میں آنے والی حقیقت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، موت اس کے لیے ایک سنی سنائی بات ہوتی ہے، جس کا اس نے کبھی حقیقی طور پر تجربہ (experience)نہیں کیا۔
یہ دور جو انسان پر پیدا ئش کے بعد مسلسل طور پر گزرتا ہے، رات دن کے اس تجربے میں وہ دھیرے دھیرے پوری طرح کنڈیشنڈ ہوجاتا ہے۔ عملاً ایسا ہوتا ہے کہ زندگی اس کے لیے ایک امرِ حقیقی بن جاتی ہے۔ اس کے برعکس، موت شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کو ایک بعید تصور کی طرح معلوم ہونے لگتا ہے۔
زندگی اور موت کے درمیان یہی وہ فرق ہے، جس کی بنا پر انسان کا حال یہ ہوجاتاہے کہ وہ زندگی کو ایک حقیقت سمجھ لیتا ہے، اور موت اس کے لیے ایک دور کی بات کی مانند ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی زندگی کی تمام سرگرمیاں حیات رخی (life-oriented) بن جاتی ہیں، نہ کہ موت رخی (death-oriented)۔ زندگی اس کے لیے ایک واقعہ ہوتی ہے، اور موت اس کے لیے ایک دور کا عقیدہ۔
یہ صورت بلاشبہ امرِ واقعہ کے خلاف ہے۔ لیکن چوں کہ یہ عقیدہ اس کے لیے کنڈیشننگ کا مستقل پارٹ بن جاتا ہے ۔ اس لیے اس سے باہر آنے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی اپنی کنڈیشننگ کو توڑے، وہ اپنے آپ کو ایک ڈی کنڈیشنڈ انسان بنائے۔ موت کے بارے میں بےخبری میں جینا امرِواقعہ کے خلاف جینا ہے۔ ایسا جینا ابدی نہیں ہوسکتا۔ وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ یہ کنڈیشننگ ٹوٹے، اور انسان کو کسی تیاری کے بغیر موت کی حقیقت کا سامنا کرنا پڑے۔
واپس اوپر جائیں
ہر آدمی جب پیدا ہوتا ہےتو اسی وقت اس کا ایک نیا سفر شروع ہوجاتا ہے۔ یہ سفر زندگی سے موت کی طرف سفر ہے۔ یہ سفر دنیاسے آخرت کی طرف سفر ہے۔یہ سفر ہر حال میں جاری رہتا ہے، خواہ انسان اس کو چاہے یا نہ چاہے، خواہ انسان اس کو جانتا ہو، یا اس کو نہ جانتا ہو۔
موت سے پہلے آدمی اس واقعے کو خبر کے طور پر جانتا ہے، موت کے بعد آدمی اس کو ایک حقیقت کے طور پر جانے گا۔ موت کے معاملے میں سب سے زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ موت ہمیشہ پوائنٹ آف نو رِٹرن کی سطح پر آتی ہے۔ موت کسی آدمی کو یہ موقع نہیں دیتی کہ وہ دوبارہ زندگی کی طرف لوٹے۔ موت سے پہلے اس نے جو کچھ نہیں کیا، اس کو موت کے بعد کرنے والا بن جائے۔
موت کے بعد کسی آدمی کے ساتھ کیا پیش آتا ہے، اس کو کوئی نہیں جانتا۔ زندہ انسان یہ تو دیکھتا ہے کہ ایک شخص ان سے چھوٹ کر جارہا ہے، مگر وہ جہاں جاتا ہے، اس کی کوئی خبر وہ وہاں سے نہیں بھیجتا۔ موت کسی آدمی کے لیے مکمل انقطاع کا لمحہ ہے۔ موت کسی آدمی کو یہ موقع نہیں دیتی کہ وہ اپنی زندگی کی ری پلاننگ کرے، یا جو کچھ اس نے کھودیا، اس کو وہ دوبارہ پانے کی کوشش کرے۔
ایسی حالت میں انسان کے لیے کرنے کا کام کیا ہے۔ وہ صرف یہ ہے کہ انسان موت سے پہلے یہ تلاش کرے کہ موت کے بعد کی خبر اگر کہیں ہےتو وہ کہاں ہے۔ آدمی اگر سنجیدہ ہو، اور وہ کھلے ذہن کے ساتھ جاننا چاہے تو وہ اس حقیقت تک پہنچے گا کہ موت کے بعد اگر کوئی مقام ہے، جہاں اس کو موت کے بارے میں خبر مل سکتی ہےتو وہ صرف قرآن ہے۔ قرآن کے سواکوئی اور ذریعہ نہیں، جہاں وہ اعتماد کے ساتھ اس موضوع (subject) پر قابلِ یقین معلومات حاصل کرسکے۔اس متلاشی ذہن کے ساتھ اگر قرآن کو پڑھاجائےتو انسان حسبِ ذیل جواب پائے گا — موت سے پہلے زندگی کا جو لمحہ تم کو ملا ہے، اس کو استعمال کرنے میں کوتاہی نہ کرو۔ کیوں کہ تمھارے لیے یہی لمحہ ہے، اس کے بعد کوئی لمحہ تم کو ملنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں
زندگی اپنی حقیقت کے اعتبار سے موت کا انتظار ہے، اور موت اپنی حقیقت کے اعتبار سے زندگی کے دوسرے دور کا آغاز ۔ زندگی کا یہ آغاز اور انجام انسان کو ہر لمحہ یاد دلا تا ہے کہ اس کے لیے رائٹ ٹریک (right track) پر چلنا کیا ہے، اور رائٹ ٹریک سے بھٹک جانا کیا ہے۔ غور وفکر سے زندگی اور موت کا جو درست نقطۂ نظر سمجھ میں آتا ہے، وہ یہ ہےکہ پیدائش سے موت تک کی زندگی تیاری کا مرحلہ ہے، اور موت کے بعد کی زندگی تیاری کے انجام کو پانے کا مرحلہ ہے۔
انسان اپنے موجودہ دورِ حیات میں ہر وقت انسانوں کے درمیان رہتا ہے۔ خواہ وہ اپنےگھر کے اندر ہو، یا گھر کے باہر۔ ہر حال میں وہ مردوں اور عورتوں کے درمیان ہے۔ اس دورِ حیات میں ہر وقت اس کو کسی نہ کسی عورت یا مرد سے سابقہ پیش آتا ہے۔ اس سے لوگوں کے درمیان انسانی تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ یہی تعلقات انسان کے لیے فیصلہ کن ہیں۔ ان تعلقات کے درمیان آدمی روزانہ جس سلوک (behaviour) کا مظاہرہ کرتا ہے، اسی سے اس کی زندگی کا ریکارڈ تیار ہوتا ہے۔ اسی سلوک کے مطابق، اس کی شخصیت (personality) بنتی ہے۔ یہی شخصیت اصل انسان ہے۔ یہی شخصیت اس کا مستقبل ہے۔
ہر عورت اور مرد کوچاہیے کہ دیکھے کہ وہ صبح و شام لوگوں کے درمیان جس سلوک کا مظاہرہ کرتا ہے، وہ کیسا ہے۔ وہ تعمیری ہے یا تخریبی، وہ مثبت ہے یامنفی، وہ سچائی پر قائم ہے یا جھوٹ پر ۔ اس اندر جو شخصیت بن رہی ہے، وہ ایک دینے والی شخصیت (giver personality) ہے، یا لینے والی شخصیت (taker personality)۔ اس کی پرسنالٹی خیر خواہی پر مبنی پرسنالٹی ہے، یا استحصال (exploitation) پر مبنی پرسنالٹی۔کامیاب انسان وہ ہے، جو زندگی کی اس نوعیت کو سمجھے، اور اس کے مطابق زندگی گزارے۔زندگی کے اس سفر میں کامیابی کی یہ لازمی شرط ہے کہ آدمی پوری طرح معرفت والا انسان ہو۔
واپس اوپر جائیں
جو آدمی اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، وہ سو سال سے کم مدت میں اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔ اس محدود مدت کے بدلے انسان کو جنت دی جائے گی،یعنی انسان محدود مدت کے عمل کے بدلے لامحدود جنت کا انعام پائے گا۔یہاں یہ سوال ہے کہ یہ انعام انسان کو کس عمل کے بدلے دیا جائے گا۔ یہ بلاشبہ ایک عجیب معاملہ ہے۔ انسان کا وہ کون سا عمل ہے، جو اس کو ابدی جنت کا مستحق بنائے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اہلِ ایمان کو ان کے محدودعمل کی بنا پر لامحدود جنت کا انعام دیا جائے گا۔ لیکن یہ انعام اس لیے نہیںہوگا کہ خود انسان کا کوئی عمل ابدی انعام کے قابل ہے۔ بلکہ اللہ کی رضامندی اس کو ابدی انعام کا مستحق بنائے گی۔ انسان اپنے عمل کے اعتبار سے محدود انعام کے قابل ہوگا۔ لیکن اللہ رب العالمین کی نسبت سے اس کے اندر ابدیت کی صفت پیدا ہوجائے گی۔ اسی حقیقت کو حدیث میں رحمتِ الٰہی کا نام دیا گیا ہے۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5673)
وہ کیا چیز ہے، جو کسی کے عمل کو اللہ رب العالمین کی ابدی رحمت کا مستحق بنائے گی۔ وہ قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے:اَلَّذِینَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّہِ (
وہ انسان جو اللہ کی رحمتوں کو اس شدت کے ساتھ دریافت کرے کہ اللہ اس کا محبوب ترین بن جائے، بلکہ تمام محبوب چیزوں سے زیادہ محبوب بن جائے۔ یہ صفت بلاشبہ ایک انوکھی صفت ہوگی، اور اللہ اس صفت کی قدردانی کرتے ہوئے، انسان کو ابدی جنت کا مستحق قرار دے گا۔ جو انسان اللہ کو دیکھے بغیر اللہ سے حُبّ شدید کا حامل بن جائے، یہ اللہ کے نزدیک اتنا زیادہ قابل قبول صفت ہوگی ، جو ان کو ابدی جنت کا مستحق بنادے گی۔
واپس اوپر جائیں
حدیث کی کتابوں میں ایک طویل روایت آئی ہے:معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھا۔ ایک دن میں آپ کے قریب ہوا، اور میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول آپ مجھے بتائیں وہ عمل جو مجھے جنت میں داخل کرے، اور جو مجھے آگ سے دور کرے۔ آپ نے کہا: تم نے بڑی چیز کے بارے میں پوچھا ہے، اور یہ آسان ہے، جس کے لیے اللہ آسان کردے۔ تم اللہ کی عبادت کرو، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نماز قائم کرو، اور زکوٰۃ ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو، اور بیت اللہ کا حج کرو۔ کیا میں تمھیں خیر کے دروازے کی طرف رہنمائی نہ کروں- روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو ختم کرتا ہے، جیسے پانی آگ کو بجھاتا ہے، اور آدمی کا آدھی رات کو نماز پڑھنا۔ پھرآپ نے اس آیت کی تلاوت کی: ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں۔ وہ اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈر سے اور امید سے۔ اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے، وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ تو کسی کو خبر نہیں کہ ان لوگوں کے لیے ان کے اعمال کے صلے میں آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔ (السجدہ،
واپس اوپر جائیں
برادر محترم جناب فاروق مضطر صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
فون کے ذریعہ مفتی ریاض احمد ڈار(پیدائش 1982) سے معلوم ہوا کہ آپ کے والد عبد العزیز وانی صاحب کا تقریباً 110 سال کی عمر میں 8فروری 2020 کو انتقال ہوگیا۔ إِنَّا لِلَّہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُونَ۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے ،اور پس ماندگان کے لیے حُسنِ تلافی کا سامان فرمائے۔
مفتی ریاض احمد ڈار سے میرے ساتھی نے پوچھا کہ مرحوم کی کوئی خاص بات بتائیں تو انھوں نے کہا کہ مرحوم خطہ پیر پنچال ( جموں)کے بہت ہی فعال ٹیچر تھے۔ تعلیمی میدان میں انھوں نے کافی خدمات انجام دی ہیں— تعلیم و تعلم کا میدان بلاشبہ بہت ہی عمدہ میدان ہے۔
مرحوم بلا شبہ ایک مخلص انسان تھے۔ مرحوم مثبت ذہن کے حامل تھے، اور تعمیری و اصلاحی مزاج رکھتے تھے۔ ہمالین ایجوکیشن مشن (راجوری، جموں)کے تحت جاری تعلیمی، ثقافتی ، سماجی تعمیر ، وغیرہ مثبت سرگرمیاں ان کی یادگار ہیں ۔وہ راجوری ہمالین ایجوکیشن مشن کےسر پرستِ اعلیٰ تھے۔ اس مناسبت سے میری ان سے کئی ملاقاتیں ہوئیں ۔ مثلاً 1978 اور 1979 کی ملاقات۔ ان کی سرپرستی میں ہمالین برادری (جس میں ان کے عزیز واقارب اور بہت سے دوسرے رفقا شامل ہیں) نے الرسالہ دعوہ مشن کو پھیلانے میں بہت زیادہ کام کیا۔ اِس معاملے میں ہمالین ایجوکیشن برادری کی جدوجہد بےمثال ہے۔
جب میں یہ سب باتیں سوچ رہا تھا تو مجھے یاد آیا کہ زندگی میں بار بار ناخوش گوار واقعات پیش آتے ہیں۔ مثلاً بیماری، حادثہ ، بڑھاپا اور موت، وغیرہ۔ اس قسم کی باتیں زندگی کا لازمی حصہ ہیں، وہ زندگی سے کبھی جدا نہیں ہوتیں۔میں نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے۔ اس میں خدا کی کون سی مصلحت کام کررہی ہے۔ غور کرنے کے بعد سمجھ میں آیا کہ یہ خدا کی ایک رحمت (blessing) ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان جو اس دنیا میں پیدا ہوتا ہے، وہ خالق کے پیدا کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔ خالق ہر انسان کو مختلف قسم کی صلاحیتیں دے کر دنیا میں بھیجتا ہے۔تاکہ وہ اپنا مطلوب رول اعلیٰ درجے میں ادا کرسکے۔ ہر انسان پر لازماً موت آتی ہے۔ موت کے بعد ہر انسان اپنے خالق کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔ہر عورت اور مرد کو اسی سوچ کے ساتھ دنیا میں زندگی گزارنا ہے۔ ہر عورت اور مرد کو اپنے بارے میں یہ دریافت کرنا ہے کہ وہ کون سا رول ادا کرنے کے لیے اس دنیا میں بھیجا گیا ہے، اور کیا وہ اس رول کو دنیا میں ادا کررہا ہے یا نہیں۔ یہی ہر انسان کا امتحان ہے۔ جو اس امتحان میں پورا اترے، وہ کامیاب ہے، اور جو اس امتحان میں پورا نہ اترے، وہ ناکام ہے۔
پھر مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آئی کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ میری دعا ہے کہ آپ لوگوں کو اللہ تعالیٰ مرحوم کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آپ کے گھر میں ان کے جانے سے جو کمی واقع ہوئی ہے، خدا اس کی بھرپور تلافی فرمائے۔ آمین
نئی دہلی
وحید الدین
واپس اوپر جائیں
انسان موجودہ دنیا میں پیدا ہوتاہے۔ یہاں وہ اپنے صبح وشام گزارتا ہے۔ مختلف تجربات کے دوران یہاں اس کی زندگی کا سفر جاری رہتا ہے۔ ان تجربات کے ذریعے شعوری یا غیر شعوری طورپر انسان کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ یہی موجودہ دنیا حقیقی دنیا ہے۔ اس کے مقابلے میں اس کو محسوس ہوتاہے کہ آخرت کی دنیا غیر حقیقی دنیا ہے۔دونوں دنیاؤں کے درمیان بہ ظاہر اس فرق کی بنا پر یہ ہوتا ہے کہ انسان کا تفکیری عمل (thinking process) موجودہ دنیا کے لیول پر جاری ہوجاتاہے۔ اس کی سوچ اور اس کی منصوبہ بندی میں عملاً آخرت کا کوئی مقام باقی نہیں رہتا۔
یہ انسان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وسیع تر انجام کے اعتبار سے صحیح یہ ہے کہ انسان کے اندر آخرت رخی سوچ (Akhirat-oriented thinking)بنے، نہ کہ دنیا رخی سوچ۔ انسان کو اس معاملے میں بے راہ روی سے بچانے کے لیے فطرت نے یہ انتظام کیا ہے کہ موجودہ دنیا کو دار الکبد (البلد،
حدیث میں آیا ہے کہ جب بھی کوئی بیمار ہوتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے لیے کہتے تھے:لاَ بَأْسَ، طَہُورٌ إِنْ شَاءَ اللَّہُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 3616) ۔یعنی کوئی حرج نہیں، ان شاء اللہ یہ پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ جب کوئی شخص بیمار ہوتا ہے تو پُر اسرار طورپر وہ ایک پاکیزہ انسان بن جاتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ کوئی آدمی اگر بیمار ی یا حادثہ ،وغیرہ کا تجربہ نہ کرے،وہ مکمل طورپر صحت مند ہو،زندگی میں اس کو کسی نقصان کا تجربہ نہ ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر فخر و ناز کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ اُس کاسینہ تواضع کے احساسات سے خالی ہوجاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ایک بے حس انسان بن کر رہ جاتا ہے۔
لیکن جب ایک سچا انسان بیماری یا نقصان میںمبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے عجز کو دریافت کرتاہے۔ اُس کے اندر دردمندی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے بندہ ہونے کی حقیقت کا تجربہ کرتا ہے۔ اس طرح بیماری اُس کو دوسری چیزوں سے دور کرکے اللہ سے قریب کردیتی ہے۔ وہ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتاہے۔ وہ اللہ کو یاد کرنے لگتا ہے۔ اُس کے دل سے دعائیں اور التجائیں نکلنے لگتی ہیں۔ بیماری اُس کے لیے اللہ سے قربت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔اس طرح بیماری ایک سنجیدہ انسان کے لیے زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کا معاملہ بن جاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کا تمام معاملہ سوچ پر مبنی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ کبھی بیماری یا مصیبت پیش آنے پر شکایت یا مایوسی کی نفسیات میں مبتلا نہ ہو۔ بلکہ جب بھی کوئی ناخوشگوار صورتِ حال پیش آئے تو وہ معتدل ذہن کے ساتھ اس پر غور کرے۔ وہ منفی واقعے میں مثبت واقعہ کو دریافت کرنے کی کو شش کرے۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اس کو قانونِ فطرت کی تائید حاصل ہوگی۔ وہ منفی واقعے میں مثبت پہلو کو دریافت کرلے گا، اور اس طرح وہ اپنے آپ کو مایوسی سے بچانے میں کامیاب ہوجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ مایوسی ایک غیر فطری چیز ہے، وہ کوئی فطری چیز نہیں۔
مثلاً بیماری بظاہر ایک انسان کے لیے غیر مطلوب چیز ہے۔ لیکن اگر ربانی ذہن ہو تو جسمانی بیماری آدمی کے لیے روحانی صحت کا ذریعہ بن جائے گی۔اس دنیا میںاصل اہمیت ذہنی بیداری کی ہے۔ بیدارذہن ہی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ واقعات سے سبق لے، اور ذہن کو بیدار کرنے والی سب سے بڑی چیز اس دنیا میںصرف ایک ہے، اور وہ مشکل حالات ہیں۔
زندگی کی اس حقیقت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیاہے:(ترجمہ) ُہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پیداوار کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو ۔ جن کا حال یہ ہے کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ہم اللہ کے ہیں، اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے اوپر ان کے رب کی شاباشیاں ہیں، اور رحمت ہے، اور یہی لوگ ہیں جو راہ پر ہیں۔ (
واپس اوپر جائیں
السلام علیکم ، آج (
پھر اس خاتون نےآپ کی کتابوں کی خواہش کی، تاکہ وہ اس کا مطالعہ کرے، اور سنڈے لکچر سننے کے لیے انٹرنیٹ کا لنک پوچھا ۔ میں نے جب فیس بک کا لنک بتایاتو اس کو انھوں نےفوراً اپنی ڈائری میں نوٹ کرلیا۔ نیز قرآن کے انگریزی ترجمے کی کچھ نسخے کا بھی مانگے، تاکہ وہ ان کو امریکہ میں ڈسٹری بیوٹ کرے ۔کیونکہ وہاں اس کے انگریزی داں پڑوسی قرآن پڑھنا چاہتے ہیں۔ یہ خاتون انگریزی اور اردو دونوں زبانوں سے واقف ہے، اور دونوں زبانوں کی اچھی طرح گفتگو کرسکتی ہے۔ چنانچہ میں نے اس کو یہ کتابیں دیں: ماہنامہ الرسالہ جون 2019 ، انگریزی ترجمۂ قرآن، دی سیکرس گائڈ ، وومن بٹوین اسلام اینڈ ویسٹرن سوسائٹی، صوم رمضان (اردو) ۔ (ام اشہاد، عمر آباد، تامل ناڈو)
برصغیرکے بہت سے مرد اور عورتیں مغربی ملکوں میں رہتے ہیں۔ وہاں ان کے پڑوس میں ایسے لوگ رہتے ہیں، جو انگریزی داں ہیں۔ اسی کے ساتھ ان کو اسلام کو جاننے کا شوق ہے۔ اسلام کی تعلیمات اگر ان کے معروف اسلوب میں ان کو دی جائے،تو وہ بہت شوق سے خود بھی پڑھیں گے، اور دوسروں کو بھی پڑھنے کو دیں گے۔ یہ مسلمس ان ڈائسپورا (Muslims in diaspora) کے لیے بہت بڑا دعوتی موقع ہے۔
واپس اوپر جائیں
ایک حدیث قدسی ان الفاظ میں آئی ہے قَالَ اللَّہُ تَعَالَى:وَجَبَتْ مَحَبَّتِی لِلْمُتَحَابِّینَ فِیَّ وَالْمُتَزَاوِرِینَ فِیَّ (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 1449)۔ یعنی اللہ تعالی نے کہا میری محبت واجب ہے، ان انسانوںکے لیے جو میری خاطر محبت کرنے والے ہیں، اور میری خاطر ایک دوسرے سے ملنےجلنے والے ہیں۔ اِس حدیث میں محبت کا مطلب مادی محبت نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب ہے اللہ کے مشن کے لیے ایک دوسرےسے ملنا جلنا ۔ یعنی وہ لوگ جو اللہ کے مشن کی خاطر باہم اکٹھے ہوں۔ جن کی مشن اسپرٹ اتنی بڑھی ہوئی ہوکہ مشن کا ہر فرد اُن کے لیے ایک محبوب ساتھی بن جائے۔ اگر ایسے کچھ افراد اکٹھے ہوجائیں، تو وہ لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ اللہ ان سے محبت کرے۔
مگر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان ہم مشن ہونےکے باوجود بعض اوقات کسی وجہ سے اکٹھا نہیں ہوپاتے ۔ مثلاً کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ہم مشن انسان مائگریشن کر کے مختلف علاقوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح آج کل کورونا وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے ، جس نے لوگوں کو مجبور کردیا ہے کہ وہ سماجی دور ی (social distancing)کو بطور علاج اختیار کریں۔ اس قسم کے موقع پر کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے کہ وہ بالمواجہہ ملاقات (face-to-face meeting) کرکے باہمی انٹرایکشن کرے۔ اس وقت جو ملاقات ممکن ہے، وہ ہے الکٹرانک ملاقات ۔
الکٹرانک ملاقات کا طریقہ موجودہ زمانے کا ظاہرہ ہے، یہ طریقہ قدیم زمانے میںموجود نہیں تھا۔ اس کو وَرچُول میٹنگ (virtual meeting) کہاجاتا ہے۔یعنی دنیا کے مختلف علاقوں میں بیٹھ کرانٹرنیٹ کے ذریعے ویڈیو یا آڈیو یا تحریرکا طریقہ اختیار کرکے آپس میں ایک دوسرے سےڈسکشن کرنا۔ ورچول ملاقات موجودہ زمانے میں براہ راست مصاحبت کا بدل ہے۔ الکٹرانک ملاقات بھی ، اگر مشن کے لیے ہوتوعملاً اللہ کی خاطر محبت کرنا، اور اللہ کی خاطر اکٹھا ہونا ہے۔سماجی دوری کے موقع پر صاحبِ مشن افراد کو اِس سہولت سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں
Maulana Wahiduddin Khan (1925-2021) was an Islamic scholar, spiritual guide, and an Ambassador of Peace. He authored over 200 books and recorded thousands of lectures giving the rational interpretation of Islamic concepts, prophetic wisdom, and the spiritual meaning of the Quran in the contemporary style. His English translation, The Quran, is widely appreciated as simple, clear and in contemporary style. He founded Centre for Peace and Spirituality (CPS) International in 2001 to re-engineer minds towards God-oriented living and present Islam as it is, based on the principles of peace, spirituality, and co-existence. Maulana breathed his last on 21 April, 2021 in New Delhi, India. His legacy is being carried forward through the CPS International Network.
© 2025 CPS USA.